کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 234
۴۔ حق کی تنفیذ میں صلابتِ دین اور دین کی پختگی: میمون بن مہران روایت کرتے ہیں کہ سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے مجھے، مکحول اور ابو قلابہ کو بلوا کر پوچھا: ’’تم لوگوں کا ان اموال کے بارے میں کیا خیال ہے جوان سے ظلماً ‘‘ چھین لیا گیا تھا؟ اس دن مکحول نے کمزور بات کہی جس کو آپ نے ناپسند کیا۔ اور کہا کہ ’’تم اپنی بات میں پھر غور کرو۔‘‘ پھر میری طرف مدد طلب نگاہوں سے دیکھا تو میں نے عرض کیا: ’’اے امیر المومنین ! عبدالملک کو بلوائیے اور اس مجلس میں حاضر کیجئے کہ وہ رائے دینے میں ان لوگوں سے کم درجے کے نہیں۔‘‘ چنانچہ جب عبدالملک مجلس میں داخل ہوئے تو آپ نے ان سے پوچھا: ’’اے عبدالملک !تمہارا ان اموال کے بارے میں کیا خیال ہے جو لوگوں سے ظلم کر کے چھین لئے گئے تھے؟ اور اب وہ لوگ اپنے چھینے ہوئے اموال کا مطالبہ لے کر آئے ہیں اور ہمیں معلوم ہے کہ کس کا کون سامال ہے؟‘‘ عبدالملک نے بر جستہ جواب دیا: ’’میری رائے یہ ہے کہ یہ اموال ان لوگوں کو واپس کر دئے جائیں وگرنہ آپ بھی ان اموال کو چھیننے والوں کے جرم میں برابر کے شریک سمجھے جائیں گے۔‘‘[1] ۵۔ مرض الوفات اور وفات حسرت آیات: عبدالملک طاعون کے مرض میں مبتلا ہوگئے تھے۔ چنانچہ والد ماجد عیادت کے لیے تشریف لائے اور پوچھا: اے میرے بیٹے! تم (اپنے آپ کو اس حال میں ) کیسا پاتے ہو؟ ’’بولے‘‘ میں خود کو حق پرپاتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’اے میرے بیٹے! میں تیری میزان عمل میں ہوں اس سے زیادہ مجھے یہ بات پسندہے کہ میری میزان عمل میں تم ہو‘‘ اس پر عبدالملک کہنے لگے: ’’اے ابا جان ! مجھے وہ بننا زیادہ پسند ہے جو آپ چاہتے ہیں اس بات سے جو میں بننا چاہتا ہوں۔‘‘[2] جب عبدالملک کو دفن کردیا گیا تو آپ نے ان کی قبر پر کھڑے ہو کر یہ خطبہ دیا: ’’اے میرے بیٹے ! اللہ تم پر رحم کرے تم اپنے باپ کے ساتھ بے حد نیکو کار تھے۔ تجھے رب نے مجھے عنایت کیا، میں اس بات پر ہمیشہ مسروررہا۔ اللہ کی قسم! تجھے اس قبر میں اتارنے کے وقت سے لے کر جس کی طرف تیرا رب تجھے لے گیا ہے میں اتنا خوش پہلے کبھی نہیں ہوا اور نہ اللہ سے کسی اجر کا اس سے قبل اتنا امید وار ہوا ہوں جو مجھے تیری وجہ سے ملے گا۔ اللہ تجھ پر رحم کرے تیرے گناہ معاف کرے، تیرے عملوں کا تجھے اچھا بدلہ دے، تیری خطائوں سے درگزر کرے اور غائب و حاضر میں سے جو بھی تیری شفاعت کرے اللہ ہر اس آدمی پر بھی رحم کرے ہم اللہ کی قضاء پر راضی ہیں، اس کے امر کو تسلیم کرتے ہیں (وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن)‘‘ پھر قبر ستان سے
[1] مجموعۃ الرسائل لابن رجب الحنبلی:۲/۴۸۸ [2] مجموعۃ الرسائل لابن رجب الحنبلی:۲/۴۹۵