کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 233
۲۔ علم و تفقّہ اور فہم و فراست:
ایک دفعہ سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے لوگوں کو جمع کر کے ان سے لوگوں کے حقوق واپس کرنے کی بابت مشورہ کیاجن کو حجاج نے ان سے چھینا تھا۔ پھر آپ نے جسے بھی کھڑا کر کے یہ سوال کیا، اس نے یہی جواب دیا کہ ظلم کا یہ بازار جب گرم تھا آپ اس وقت خلیفہ نہ تھے اور نہ یہ ستم کیشی آپ کی زیر ولایت ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ سوال کرنے کی باری آپ کے بیٹے عبدالملک تک جاپہنچی۔ عبدالملک نے کھڑے ہو کر یہ مومنانہ اور جرأت مندانہ جواب دیا کہ اے امیر المومنین ! اگر کوئی حجاج کے مظالم کا ازالہ کر سکتا ہو اور پھر بھی نہ کرے تو وہ ان مظالم میں حجاج کا شریک وسہیم سمجھا جائے گا۔ یہ جواب سن کر آپ بے حد خوش ہوئے۔ اور درست جواب تھابھی یہی کہ جب کوئی امام اپنے سے پہلے والیوں اور حکمرانوں کے مظالم ردّ کرسکتا ہو تو اس پر حسب استطاعت ان مظالم کا رد کرنا واجب ہوتا ہے۔[1]
سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ اور آپ کے فرزند ارجمند جناب عبدالملک کا شمار ان علماء میں ہوتا ہے جنہوں نے اُس علم الٰہی کو، جس کامقتضی خوف وخشیت خداوندی، محبت الٰہی اور اللہ کی طرف عبادت کے لیے یکسو ہو جانا ہوتا ہے اور اُس علم الٰہی کو ایک دل میں جمع کردیاتھا جو حلال و حرام اور فتاوی و احکام کی معرفت کو مقتضی ہوتا ہے۔[2]
۳۔ والد ماجد کو موت کی یاد دلانا:
سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے ایک بیٹے کا انتقال ہوگیا۔ آپ تشریف لاکر اس کے سرہانے بیٹھ گئے، آپ نے بیٹے کے منہ سے کپڑا ہٹا یا اور پر نم نگاہوں کے ساتھ اسے دیکھنے لگے۔ اتنے میں عبدالملک بھی پہنچ گئے انہوں نے والد ماجد کی آنسو بہاتی آنکھیں دیکھیں تو کہنے لگے، ’’اے امیر المومنین! اس کو تو موت نے آلیالیکن کیا آپ اس موت کو بھول گئے جو آپ پر آنے والی ہے ؟ بلکہ جو موت آپ پر آنی ہے اور جو غم آپ پر ٹوٹا ہے اس کی اسے کچھ پروا نہیں۔بس آپ تو گویا اس سے جاہی ملے ہیں او ریوں سمجھئے کہ مٹی کے نیچے آپ اور یہ دونوں برابر ہوچکے۔‘‘ یہ سن کو آپ رونے لگے، پھر فرمایا: ’’اے میرے بیٹے! اللہ تم پر رحم کرے۔ خدا کی قسم تم کس قدر برکت والے ہو۔ جتنا تیری نصیحت نے تیرے باپ کو نفع دیا ہے اتنا نصیحت سننے والوں میں سے کسی کو نفع نہیں ہوا۔ اللہ کی قسم! یہ آنسوں جو تم دیکھ رہے ہو یہ تیرے بھائی کی موت کے غم میں ہیں لیکن جب میں نے یہ جانا کہ ملک الموت میرے گھر کا ایک چکر لگا گیا ہے تو میں بے حد خوفزدہ ہو گیا گویا کہ میں نے موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ پھر آپ نے تجہیز و تکفین اور غسل دینے کا حکم دیا۔[3]
[1] مجموعۃ الرسائل لابن رجب الحنبلی:۲/۴۸۱
[2] ایضًا :۲/۴۸۷
[3] ایضًا :۲/۴۸۱