کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 232
متاثر کرتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ طلباء کو وقتا فوقتاً آرام کا وقت دیا جائے۔ تاکہ وہ اگلے دن کے تعلیمی پروگراموں کے لیے مستعد چست اور چاک و چوبند ہوجائیں۔ اور آخری بات جس کا اوپر بھی بار بار ذکر آچکا ہے، یہ ہے کہ تعلیمی پروگراموں کے ساتھ بدنی ریاضتوں کا بھی اہتمام کیا جائے تاکہ جسمانی صحت عقل کو تقویت دے اور ذہن کو جلا بخشے۔[1] تربیت اولاد کے اس منہج کے نتائج آپ کے تعلیمی منہج اور اسلوبِ تربیت کے واضح اثرات آپ کے بیٹے عبدالملک میں نظر آتے تھے۔ بے شک عبدالملک آسودگی، راحت وعیش مال و دولت کی کثرت اور ناز و نعم میں پلنے والے نوجوانوں کے لیے ایک عمدہ اور ربانی نمونہ تھے۔ ذیل میں اس کے چند نمونے پیش کیے جاتے تھے۔ ۱۔ عبدالملک کی عبادت گزاری اور دُعا و زاری: سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا بھتیجا عاصم بن ابو بکر بن عبدالعزیز بن مروان روایت کرتا ہے کہ میں ایک وفد کے ساتھ جس میں عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ بھی تھے، سلیمان بن عبدالملک کے پاس ملنے گیا۔ میں نے چچا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے بیٹے عبدالملک کے گھر ٹھہرنا پسند کیا۔وہ اس وقت بھر پور نوجوان تھے۔ ہم نے عشاء کی نماز اکٹھے ادا کی۔ نماز کی بعد ہر کوئی سونے کے لیے اپنے اپنے بستر میں گھس گیا۔ اس کے بعد عبدالملک نے اٹھ کر چراغ بجھا دیا اور کھڑے ہو کر نماز ادا کرنے لگا۔ کچھ دیر تک تو میں یہ منظر دیکھتا رہا پھر نہ جانے کب نیند نے مجھے آدبوچا ا ور میں نیند کی وادی میں اتر گیا۔ پھر اچانک میری کھلی تو کیا کہ وہ یہ آیت تلاوت کر رہا ہے: {اَفَرَاَیْتَ اِِنْ مَتَّعْنَاہُمْ سِنِیْنَ o ثُمَّ جَائَ ہُمْ مَا کَانُوْا یُوْعَدُوْنَ o مَا اَغْنٰی عَنْہُمْ مَا کَانُوْا یُمَتَّعُوْنَ } (الشعرا ء: ۲۰۵۔ ۲۰۷) ’’پس کیا تو نے دیکھا اگر ہم انھیں کئی سال فائدہ دیں۔پھر ان کے پاس وہ چیز آجا ئے جس کا وہ وعدہ دیے جاتے تھے۔تو وہ فائدہ جو وہ دیے جاتے تھے، ان کے کس کام آئے گا؟‘‘ پھر رونے لگا۔ پھر دوبارہ یہ آیت پڑھی اور ختم کر کے رونے لگا اور اتنا رویا کہ میں یہ سمجھا کہ شاید روتے روتے اس کا دم نکل جائے گا۔ یہ منظر دیکھ کر میں نے ’’لا الہ الا اللہ والحمد للہ‘‘ پڑھا جیسا کہ میں نیند سے جاگا اور جاگنے کی دعا پڑھی تاکہ مجھے بیدار ہوتا دیکھ کر رونے کا یہ سلسلہ توختم کریں۔ چنانچہ وہی ہوا جیسے ہی انہوں نے میری دعا سنی تو ایک دم خاموشی اختیار کرلی۔ پھرمجھے ان کی کوئی آوازسنائی نہ دی۔[2]
[1] النموذج الاداری،ص: ۱۱۹ [2] مجموعۃ رسائل الحافظ ابن رجب الحنبلی:۲/۴۷۹