کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 231
بھیجا اس کو ہم ’’تنظیم الا وقات‘‘ کا نام دے سکتے ہیں گویا کہ آپ نے تعلیمی نصاب اور اس کے طریقہ تعلیم کے ساتھ ساتھ نظم الاوقات بھی لکھ بھیجے۔ چنانچہ آپ نے روزانہ کا معمول یہ مقرر کیا کہ دن کا اور تعلیم کا آغاز قرآن کریم کے ایک جزء کے پڑھنے اور خوب یادکرنے کے ساتھ کیاجائے کیونکہ صبح کے وقت دل ودماغ تازہ اور شگفتہ ہوتے ہیں رات بھر کے آرام سے دل ودماغ کی تکان دور ہو کر پرا گندگی اور وساس کا فور ہوچکے ہوتے ہیں۔ اور اس وقت دماغ میں کسی بات کو جذب اور جاگزیں کرنے کی استعداد کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے بعد قرآن کو پکا کرنے کا وقت مقرر کیا۔ پھر دوسرے علوم کی باری مقرر کی۔ پھر تیر اندازی کی مشق کے لیے نشانہ گاہ جانا طے کیا۔ تاکہ علم حاصل کرنے کے بعد جہاد کی تیاری کی تعلیم حاصل کی جائے۔ اور پڑھنے کے بعد بدنی ریاضتوں میں یوں بھی دل زیادہ لگتا ہے۔ اس سے نہایت اعلی درجہ کی صلاحیت اور پختگی حاصل ہوتی ہے۔ اور اس یومیہ پروگرام کا اختتام قیلولہ پر ہوتا ہے کیونکہ آرام کایہ وقت، روح وبدن اور عقل تینوں کی راحت کے لیے نہایت مفید ہوتا ہے۔[1] ۵۔ تعلیمی اثرات کی رعایت: سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے تعلیم سے متعلقہ اور ان تمام امور کی بے حد رعایت و نگہداشت کی جن کے عقل و فہم، اور اخذ کرنے کی استعداد پر عمدہ اثرات مرتب ہوتے ہوں اورجن سے عقل میں اضافہ ہوتا ہو، خواہ ان امور کا قریب یا دور کا تعلق ہو لیکن بہرحال آپ ان امور کی رعایت کرتے تھے۔ لہٰذا سب سے پہلے آپ نے جس امر کا بے حد اہتمام کیا اور جس نے آپ کی اولاد کے علم، اخلاق اور ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے وہ تھا ان کے استاذ کا انتخاب، اس کے علم کا اولاد کو عطیہ اور اولاد کا اس معلم کے علم وادب اور سیرت و اخلاق کی پیروی کرنا۔ دوسرے ان امور کی رعایت کی جائے اور ان سے بچا جائے جن سے غیر سنجیدگی پیدا ہوتی ہے جیسے زیادہ ہنسنا، مزاح کرنا، لہوو لعب میں زیادہ مشغول ہونا کہ یہ امور تعلیمی اغراض و مقاصد کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں اوران سے آگے بڑھنے کا جذبہ اور بلند ہمتی کا جوش و خروش ٹھنڈا پڑجاتا ہے۔ اور فہم وادراک کا مطلوبہ معیار بھی حاصل نہیں ہو پاتا۔ تیسرے رقص وغنا، اور طرب و موسیقی کی محفلوں میں جانے سے گریز کیا جائے۔ان مجالس میں وقت ضائع کرنے کی بجائے اپنے علمی مشاغل کی طرف پوری توجہ دی جائے۔ چوتھے نوعمر کی نفسانی خواہشات اور بدنی راحت کا بھی بھر پور خیال رکھا جائے تا کہ تعلیمی مشاغل کا تسلسل طبیعت کے ملال اور دل کی اکتاہٹ کا سبب نہ بن جائے کیونکہ طبیعت کا یہ ملال مطلوبہ علمی استعداد کو
[1] المنوذج الاداری،ص:۱۱۸