کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 230
افسوس کہ آج کے بڑے بڑے تعلیمی نصاب ان اعلی او ربلند مقاصد سے خالی نظر آتے ہیں۔[1] ۳۔ تعلیم و تادیب کے طریقہ کی تحدید: آپ نے اولاد کی تعلیم و تربیت کے لیے صرف اچھا استاذ چن لینے اور عمدہ تعلیمی نصاب مقرر کر لینے پر ہی اکتفاء نہ کیا تھا بلکہ آپ نے تادیب و تعلیم کا طریقہ بھی خود مقرر کیا جس کی پیروی کرنا معلم و مودب کے لیے ضروری تھا اور اس پر لازم تھا کہ آپ کی اولاد کی تربیت کے وقت اسی طریقہ کو اختیار کر ے۔ آپ نے معلم کو بتلایا کہ وہ تعلیم کی تنفیذ کس دقت اور اتقان کے ساتھ کرے۔ چنانچہ آپؒ نے سہل کو لکھے گئے خط میں ان امور پر روشنی ڈالتے ہوئے بتلایا کہ سہل آپ کی اولاد کے ساتھ ذرا سختی کا رویہ اپنائے، پورے تعلیمی عمل کے دوران سنجیدگی اور متانت کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔ ایساکرنے سے ان میں خود اعتمادی پیدا ہوگی،وہ زیادہ توجہ اور دھیان کے ساتھ علم وادب کو حاصل کریں گے۔ پھر آپ نے اپنے بیٹوں کے معلم سے اس بات کا مطالبہ کیا کہ وہ ان کے ساتھ دوستی نہ لگائے کیونکہ دوستی غفلت پیدا کرتی ہے۔ اور تاکہ استاد کا مقام و مرتبہ شاگردوں کی نگاہوں میں باقی اوربلند رہے۔ ایک معلم کو یہ بات زیبا نہیں کہ وہ شاگردوں سے دوستی لگائے۔ انہیں اپنا دوست بنائے۔ ان کے ساتھ بے کار وقت بتائے، ان سے راز ونیاز کی گفتگو کرے۔ ایران طور ان کے مشورے کرے۔ پھرکہیں ایسا نہ ہو کہ استاذ کو بہت قریب سے دیکھنے کے بعد شاگردوں کو اس کی بعض عادات ناپسند آنے لگیں اور بے تکلفی اتنی بڑھ جائے کہ استاذ کے امرکے امتثال میں تاخیر یا تعطیل واقع ہونے لگے اور نوبت استاذ کی بے وقعتی اور بے توقیری کرنے تک آجائے۔[2] بلاشبہ استاذ اور شاگرد میں ان رویوں کے پیدا ہونے کایہ ناخوش گوار نتیجہ نکلتا ہے کہ شاگردوں کے دل سے استاذ کی بات کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے اور وہ استاذ کے حکم سے غفلت برتنے لگتے ہیں۔ اسی طرح آپ نے اپنی اولاد کے معلم سے اس بات کا مطالبہ بھی کیا کہ اس کے اخلاق اوررویے سے آپ کے بٹیوں کے دلوں میں کھیل تماشوں، لہوولعب راگ رنگ رقص وسرود اور نغمہ و ساز کی نفرت پید اہونی چاہیے کیونکہ یہ باتیں ایک مسلمان کی زندگی پر بے حد برے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ قارئین کرم! آپ نے دیکھا کہ سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے جو حکم بھی دیا اس کی وجہ بھی ضرور بیان کی اور اس کے عمدہ نتائج اور فوائد کو بھی بیان کیا اور جس بات سے بھی منع کرنے کاحکم دیا اسکے انجام بدکے ساتھ ساتھ برے اثرات بھی بیان کیے۔[3] ۴۔ اوقات تعلیم اور اولویات کی تحدید: سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت کے لیے معلم و مربی کو جو برنامج (پروگرام) لکھ
[1] المنوذج الاداری،ص:۱۱۴ [2] ایضًا [3] المنوذج الاداری،ص:۱۱۷