کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 23
بھی کلام کیا ہے جیسے جناب کا صحیح العقیدہ ہونا،سلامت منہج کا مالک ہونا، عالم ومجتہد ہونا وغیرہ۔ ا س کے ساتھ ساتھ جناب کے فکر وسلوک کے میدان میں تجدیدی کارناموں اور اپنے دور کے لوگوں کو عمومی نفع پہچانے وغیرہ جیسی صفات کو بھی ذکر کیا ہے۔
سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ اہل سنت والجماعت کے عقائد کا بے حداہتمام کرتے تھے۔ چنانچہ توحید الوہیت، رب تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اور صفات علیا، آخرت پر ایمان کا صحیح مفہوم، امور غیبیہ جیسے عذاب قبر اور اس کی نعمتیں ، یوم آخرت، میزان عدل، حوض کوثر، پل صراط، جنت، دوزخ ، جنت میں مومنوں کا رب تعالیٰ کی زیارت کرنا وغیرہ کہ ان سب باتوں پر پختہ اعتقاد کی بابت جناب سیّدنا کا وہی عقیدہ تھا جو جمہور اہل سنت والجماعت کا تھا۔ سیّدنا عمر رحمہ اللہ کتاب وسنت اور سنت خلفائے راشدین کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے کی بھر پور دعوت دیتے تھے۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین ان کے باہمی مشاجرات اور اہل بیت کے بارے میں ان کا موقف اہل سنت والجماعت کے مطابق تھا۔
میں نے اس کتاب میں اس موضوع پر بھی گفتگو کی ہے کہ جناب عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا خوارج، شیعہ اور قدریہ کے بارے میں کیا نظریہ تھا، آپ کی معاشرتی زندگی، اولاد اور اہل خانہ کے ساتھ معاملات اور معاشرت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ آپ کا اپنی اولاد کی تربیت کے بارے میں کیا منہج تھا اس کو بھی بیان کیا ہے، چنانچہ آپ نے اپنی اولاد کی تربیت کے لیے ماہر معلمین اورصالح مؤدبین کا انتخاب کیا۔ منہج علمی، تعلیم وتادیب کے طریقہ، اوقات اور اولویات تعلیم کی بابت آں جناب کی تحدید پر بھی گفتگو کی ہے۔ اس کے علاوہ موثرات تعلیمیہ، اس منہج کے نتائج اور آپ کے بیٹے عبدالملک کے متاثر ہونے کو بھی بیان کیا ہے۔ میں نے ان موضوعات پر بھی گفتگو کی ہے کہ لوگوں کے ساتھ آپ کا کیا معاملہ تھا۔ ان کی اصلاح وتربیت کے لیے آپ نے کیا طریقہ کا ر اختیار کیا، لوگوں کو آخرت یاد دلانے، ان کے غلط نظریات کی تصحیح کرنے اور ان سے ہرقسم کی عصبیت کو نکال باہر کرنے کے لیے کیا کیا اقدامات کیے حتی کہ ان کے دلوں سے پہلے اسلام لانے کی عصبیت کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ آپ اہل علم وفضل کا احترام کرتے، مقروضوں کا قرض ادا کرتے، مسلمان قیدیوں کو چھڑواتے، حاجت مندوں کی حاجت رفع کرتے اور تنگدستوں کے مہر بیت المال سے ادا کرتے۔ آپ نے معاشرے کے مختلف طبقات کو ایک دوسرے کے قریب کرنے کے لیے بے پناہ کوششیں کیں ، شعراء کے ساتھ آپ کا معاملہ بے حد کریمانہ تھا۔ علمائے کرام کی بے حد تو قیر کرتے، آپ اپنے اصلاحی منصوبوں کی کامیابی کے لیے اپنے ساتھ علماء کو شریک کرتے۔ چنانچہ علمائے کرام آپ کی ہدایات کے منتظر رہتے اور آپ کے تجدیدی منہج کو آسانی کے ساتھ منزل مراد تک پہچا نے کے لیے آپ کا بھر پور تعاون کرتے۔اور علماء کو اپنی