کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 229
سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے اس خط میں مندرج تو جیہات سے ہم مندرجہ ذیل امور اخذ کرسکتے ہیں: ۱۔ اولاد کی تربیت کے لیے نیک معلم اور مؤدب کا اختیار کرنا: تعلیم و تربیت اور تادیب میں معلم اور مربی کو پہلی اینٹ اور بنیادی پتھر سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے آپ نے اپنی اولاد کے لیے جس کو معلم چنا وہ آپ کے خواص میں سے تھا اور آپ ذاتی طو رپر جانتے تھے کہ وہ ایک معتمد اور بھروسے لائق شخص ہے۔ پھر آپ نے اپنی اولاد کی تربیت کے لیے صرف سہل پرہی اکتفاء نہ کیا بلکہ ان کو خود اپنے پہلے استاذ صالح بن کیسان کے حوالے بھی کیا تاکہ وہ ان کی بہتر سے بہتر تعلیم وتربیت کریں۔[1] لیکن آپ ابھی بھی مطمئن نہ تھے۔ اس لیے آپ نے اپنے دور کے اکابر علماء وصلحاء کو اس بات پر مامور کیا کہ وہ آپ کی اولاد کی عقل اور ادب دونوں کا امتحان لیں اور ان کو خوب پر کھیں۔ چنانچہ آپ نے میمون بن مہران کو اپنے بیٹے عبدالملک کے امتحان کے واسطے بھیجا۔ میمون بن مہران کہتے ہیں : میں امیرالمومنین کے امر پر عبدالملک کے پاس گیا۔ اور اس کے ساتھ کچھ وقت گزارا۔ میں عبدالملک کی عقل وفہم اور حسن ادب سے بے حد متاثر ہوا۔[2] ۲۔ علمی منہج کی تحدید: آپ اپنی اولاد کو جو علوم سکھلانا چاہتے تھے آپ نے ان کی حد خود مقرر کردی تھی۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ اپنی اولاد کا تعلیمی نصاب آپ نے خود تجویز اور مقرر کیا تھا۔ وہ یہ کہ انہیں قرآن کریم، اس کے متعلقہ علوم، اور دوسرے باقی علوم کے ساتھ ساتھ جہادی تربیت سے بھی خوب آراستہ کیا جائے۔ چنانچہ وہ فنون حربیہ میں مشاق اور ماہر نشانہ باز تلوار باز اور گھڑ سوار ہوں۔اس کے علاوہ بدنی ریاضت اور مشقت و جفاکشی کی عادت بھی ہو۔ اسی لیے یہ مقرر کیا کہ وہ نشانہ بازی کی جگہ ننگے پیر جایا کریں تاکہ طبیعتوں میں جفاکشی پیدا ہو، ان سب امور کے علاوہ آرام کے اوقات بھی مقرر کیے تاکہ محنت اور راحت میں اعتدال پیدا ہو اور کسی پہلو میں بھی افراط و تفریط مزاج کے غیر مستقیم اور طبیعت کے غیر معتدل ہونے کا سبب نہ بن جائے۔ قرآن کریم کا ایک جز روزانہ پکا کرنا مقرر کیا۔ اور ساتھ ہی یہ بھی طے کیا کہ قرآن کریم کے اتنے حصہ سے متعلقہ دوسرے علوم کی تعلیم بھی دی جائے۔ جیسے تفسیر، حدیث، بلاغت، معانی اور سبب نزول وغیرہ۔ تیر اندازی میں مہارت پیدا کرنے کے لیے روزانہ کے سات نشانے لگانے مقرر کیے۔ بے شک یہ تعلیمی منہج نہایت بلند مقاصد کو شامل تھا، کہ آپ نے دین اور دنیا دونوں کو جمع کیا۔ اس منہج میں بدن وروح دونوں کی تربیت وراحت کا پورا پورا لحاظ تھا تاکہ قول و عمل میں قرار واقعی تطبیق پیدا ہو۔[3]
[1] تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۴۸ [2] سیرۃ عمرلابن الجوزی،ص: ۳۰۲ [3] المنوذج الاداری،ص:۱۱۳