کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 228
تھے تاکہ اس کی ذات اور اس کے مقاصد میں یک جہتی پیدا ہو اور اس کے قول وفعل میں تقسیم یا تضاد کا شائبہ تک نہ پایا جائے۔بلکہ اس کی زندگی واقعات ونظریات کے امتزاج کا ایک عمدہ نمونہ ثابت ہو۔ [1] آپ کے اس تعلیمی منہج کا عکس ہمیں اس خط میں نظر آتا ہے جو آپ نے اپنے بیٹوں کے معلم و مودب اور استاذ سہل بن صدقہ کو لکھا تھاجوآپ کاہی آزاد کردہ غلام بھی تھا۔ جس میں آپ انہیں اس بات کا اختیار دیتے ہیں کہ وہ آپ کی اولاد کی تعلیم وتادیب اور تربیت کی ذمہ داری کو اہتمام سے ادا کرے، اس کے بعد آپ تادیب کے طریقے کی حدود بیان کرتے ہیں۔[2] چنانچہ آپ اس خط میں لکھتے ہیں : ’’یہ خط ہے اللہ کے بندے عمر امیر المومنین کی طر ف سے اپنے آزاد کردہ غلام سہل کی طرف: امابعد! میں نے آپ کو آپ کے بارے میں اپنی معلومات کی روشنی میں اپنے بچوں کا استاذ مقرر کیاہے تاکہ آپ ان کی تربیت کریں اور انہیں ادب سکھائیں۔ اورمیں نے اپنے دوسرے خاص آدمیوں اور خادموں کو چھوڑ کریہ اہم ذمہ داری آپ کے سپرد کی ہے۔ اب چند اہم باتیں سن لیجئے! ان سے روکھا بولنا یہ بات انہیں آگے بڑھنے میں بے حد مدد دے گی۔ ان کے ساتھ دوستی نہ لگانا کہ اس سے غفلت پیدا ہوتی ہے اورا ن کے سامنے کم ہنسناکہ زیادہ ہنسنادل مار دیتا ہے۔ آپ کی تربیت سے انہیں سب سے پہلے جو چیز حاصل ہونی چاہیے وہ ہے لہوو لعب اور کھیل تماشوں کی نفرت، کہ ان کا آغاز تو شیطانی ترغیب سے ہوتا ہے لیکن انجام رب رحمان کی ناراضی اور غضب کی صورت میں نکلتا ہے۔ مجھے معتبر اہل علم سے یہ بات پہنچی ہے کہ ساز و طرب اور رقص و سرود کی محفلوں میں جانا گیت سنگیت کا از حد سننا کہ یہ دونوں باتیں دل میں یوں نفاق پیدا کرتی ہیں جیسے پانی جنگلی گھاس کو پیدا کرتا ہے۔ میری عمر کی قسم! ایسی محفلوں میں جانے سے بچنا ایک عقلمند کے لیے دل میں نفاق کو پیداکرنے سے زیادہ بہتر ہے۔ کیونکہ ایک ہوشیار آدمی جب محفل موسیقی سے لوٹتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ اس کے کانوں نے جو کچھ سنا ان میں سے نفع کی بات کوئی بھی نہیں۔ میرا ہر بیٹا دن کا آغاز قرآن کریم کے ایک جزء کی قراء ت سے کرے اور اس میں خوب پختگی حاصل کرے۔ پھر وہ اپنے تیر اور کمان لے کر نشانہ گاہ کی طرف ننگے قدموں جائے جہاں جا کر تیراندازی کی خوب مشق کرے اور اپنا نشانہ پختہ کرے اور اس غرض کے لیے روزانہ سات بار تیر نشانے پر پھینکے۔ پھر قیلولہ کے لیے لو ٹ آئے۔ کیونکہ سیّدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے’’اے میرے بیٹو! قیلولہ کیا کرو، کیونکہ شیطان قیلولہ نہیں کرتا۔‘‘[3]
[1] المنوذج الاداری،ص: ۱۱۰ [2] المنوذج الاداری،ص: ۱۱۰ [3] سیرۃ عمرلابن الجوزی،ص: ۲۹۶۔۲۹۷