کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 227
ازضرورت چیز یں بیچ کر اگر ان کی رقم سے شادی کا انتظام کرنا چاہو تو کرسکتے ہو۔[1]
پھر آپ نے فقط بیٹوں کی ہی اس نہج پر تربیت نہ کی بلکہ بیٹیوں اور بیویوں کی بھی ایسی ہی تربیت کی۔ کہتے ہیں کہ آپ کی امینہ نامی ایک بیٹی تھی۔ ایک دن وہ آپ کے پاس سے گزری تو آپ نے پکارا’’اے امینہ ! اس نے کچھ جواب نہ دیا اور آگے بڑھ گئی۔ آپ نے خادم بھیج کر بلوایا اور جواب نہ دینے کی وجہ دریافت کی تو بولی’’اباجان! میرا لباس معمولی تھا۔ ( اورمعمولی درجے کے لباس میں آپ کے سامنے آتے ہوئے شرم آگئی) یہ سن کر آپ نے اپنے خادم سے فرمایا۔۔ مزاحم! ذرا ان بچھونوں کو دیکھنا جو ہم نے پھاڑ کر ٹکڑے کیے تھے (کیاان میں سے کوئی ٹکڑا ہے )؟ اگر کوئی ٹکڑا ہے تو اس سے امینہ کو ایک قمیض بنوا دو۔[2]
یہ تو بیٹیوں کے کپڑوں کا حال تھا۔ اب ذرا ان کے کھانے کا حال بھی سن لیجئے۔ ابن عبدالحکم کی روایت ہے کہ آپ عشاء پڑھ کر بیٹیوں کے پاس تشریف لے جاتے تھے۔ انہیں سلام کرتے۔ اسی طرح ایک دن حسب معمول عشاء کے بعد ان کے پاس گئے آپ کے آنے کی آہٹ سن کر بیٹیوں نے اپنے مونہوں پر ہاتھ رکھ لیے اور جلدی سے دروازہ کی طرف لپکیں۔ آپ نے خادمہ سے پوچھا کہ یہ انہیں کیا ہوا؟ تو وہ بولی: ’’آج رات ان کے پاس کھانے کے لیے دال اور کچے پیاز کے سوا کچھ نہ تھا۔ انہیں برا لگا کہ کہیں آپ کو پیاز کی بد بونا گوار نہ لگے، اس لیے اندر چلی گئیں۔‘‘ آپ یہ سن کر رو پڑے پھر بیٹیوں سے فرمایا: اے میری بیٹیو! یہ طرح طرح کے کھانے تمہارے کس کام کے اگر تم (عالم آخرت میں ) اپنے باپ کے پاس سے گزرو اور وہ جہنم کی آگ میں جل رہا ہو؟ یہ سن کر بیٹیاں رونے لگیں حتی کہ ان کے رونے کی آواز بلند ہوگئی۔ پھروہ لوٹ گئیں۔‘‘[3]
آپ نے اپنے گھر والوں کو زہد وقناعت والی زندگی گزارنے پر تیار کرنے کے لیے ہر ممکن طریقہ اختیار کیا۔ چنانچہ آپ نے اپنی اہلیہ فاطمہ بن عبدالملک کو جہیز میں ملنے والاسارا زیور اور ہیرے جواہرات بیت المال میں جمع کروا دئے۔ پھر بیوی سے یہ کہا: ’’تجھے اختیار ہے چاہو تو بیت المال سے اپنا زیور واپس لے لو یا مجھ سے جدائی اختیار کرلو۔ کیونکہ مجھے یہ پسند نہیں کہ میں، تم اور وہ زیورات ایک گھر میں ایک چھت تلے اکٹھے رہیں۔‘‘
فاطمہ بولیں: نہیں! بلکہ اے امیرا لمومنین! میں اس جیسے دوگنے زیور پر بھی آپ کو اختیار کرتی ہوں۔[4]
اولاد کی تربیت کا اہتمام
آپ نے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ اور اس غرض کے حصول کے لیے ایسے تعلیمی پروگراموں کا اجراء کیا جو ایک ابھرتے مسلمان نوجوان کی ہرطرح کی تعلیمی واخلاقی ضروریات کو پورا کرتے
[1] سیرۃ عمرلابن عبدالحکم،ص: ۱۰۶
[2] حلیۃ الاولیاء:۵/۲۶۱
[3] سیرۃ عمرلابن عبدالحکم:۴۸۔۴۹
[4] الطبقات: ۵/۳۳۰