کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 226
کَفَرَ فَاِِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ کَرِیْمٌ} (النمل:۴۰) ’’یہ میرے رب کے فضل سے ہے، تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتاہوں، یا نا شکری کرتا ہوں اور جس نے شکر کیا تو وہ اپنے ہی لیے شکرکرتا ہے اور جس نے ناشکری کی تو یقینا میرا رب بہت بے پروا، بہت کرم والا ہے۔‘‘ آپ نے اپنے بیٹے کو یہ خط خلافت سنبھالنے کے فوراً بعد لکھا تھا۔ جبکہ اس وقت آپ کا بیٹا ایک شاہانہ عیش وعشرت اور ٹھاٹھ باٹھ کی زندگی گزار رہا تھا۔ چنانچہ آپ نے اس خط میں بیٹے کی زاہدانہ تربیت کے لیے نہایت عمدہ اسلوب اختیار کیا۔ وہ یوں کہ آپ نے اسے بتدریج نصیحت کی اور اسے جتلایا کہ غنا اور مال کی کثرت رب تعالی کی آزمائش ہے، اس کے بعد یہ سمجھایا کہ یہ عیش و عشرت اور فرفہانہ زندگی یکایک ترک نہ کرو بلکہ نعمتِ غنا اور دولت و ثروت کی کثرت میں میانہ روی اختیار کرو۔ پھر رب کے آگے انکساری اختیار کرنے کی ترغیب دی۔ اور آخر میں مال سے متعلقہ اللہ کے حقوق وفرائض کی ادائیگی کی ترغیب دی اور اس کی اہمیت کو خوب اجاگر کیا کہ زکوۃ اور صدقات کی بابت رب تعالیٰ کے حکم کی تابعداری کرے۔[1] اسی طرح کسی موقعہ پر آپ کو اس بات کی اطلاع ملی کہ آپ کے بیٹے نے ایک انگوٹھی بنوائی ہے جس میں ایک ہزار درہم کا نگینہ لگوایا ہے تو آپ نے اسے یہ خط لکھا: مجھے معلوم ہو اکہ تم نے انگوٹھی کا صرف نگینہ ہزار دراہم میں خریدا ہے۔ (یقینا یہ سراسرفضول خرچی ہے ) اس لیے اسے بیچ ڈالو اور اس کی قیمت سے ایک ہزار بھوکوں کو پیٹ بھر کے کھانا کھلائو اور چینی لوہے کی انگوٹھی بنواکر پہنو اور اس پر یہ الفاظ کندہ کروانا ’’اللہ اس بندے پر رحم کرے جس نے اپنی ذات کی قدر وقیمت کو پہچانا۔‘‘ [2] ذرا دیکھے کہ آپ نے نگینہ بیچ کر بھوکوں کو کھانے کھلانے کا حکم دیا تاکہ بیٹے کو اس بات کا قوی شعور حاصل ہوکہ خرچ کرنے کے اہم مواقع کون کون سے ہیں۔ تاکہ آئندہ چل کر بھی مال کو احتیاط سے خرچ کرنے کی عادت پڑے اور حاجت و اسراف کے درمیان فرق کرنے کا ملکہ حاصل ہو۔ دوسرے رب تعالیٰ کی کمزور اور محتاج مخلوق ہر وقت نظروں کے سامنے رہے۔[3] ایک دفعہ آپ کے ایک شادی شدہ بیٹے نے دوسری شادی کی اجازت مانگی اور شادی کا خرچ بیت المال سے ادا کرنے کی درخواست کی۔ آپ نے خط لکھ کر ناراضی کا اظہار کیا اور کہا کہ کیا تم بیت المال کے خرچ پر گھر میں سوکن لانے کی درخواست کرتے ہوں جبکہ بے شمار مسلمان نوجوانوں کو ایک شادی کی سہولت بھی میسر نہیں۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ تم مجھ سے ایسی بات بھی کرو گے۔ پھر دوسرا خط لکھا کہ گھر کے اثاثہ میں سے زائد
[1] المنوذج الاداری…ص: ۱۰۶ [2] سیرۃ عمرلابن الجوزی،ص: ۲۹۸ [3] سیرۃ عمرلا بن عبدالحکم: ۱۰۶