کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 225
اس ابن حارثیہ کے ساتھ وہ سلوک کرتے ہیں جو اپنی باقی اولاد کے ساتھ نہیں کرتے۔ آپ مطمئن نہ رہیے عنقریب یہ کہاجانے لگے گا کہ اس لڑکے کے پاس جو ہے وہ اس کے دوسرے بھائیوں کے پاس نہیں۔ آپ نے پوچھا کیا تم کو یہ بات کسی نے سکھلا کر بھیجا ہے؟ میں نے کہا نہیں توفرمایا اچھا یہ بات ذرا پھر کہو۔ میں نے بات دہرا دی تو فرمایا : ابھی تم گھر لوٹ جائو۔ اس پر میں لوٹ آیا۔ میں، ابراہیم، عاصم اور عبداللہ کہ ہم چار بھائی اکٹھے سوتے تھے۔ ابھی ہم بیٹھے ہی تھے کہ کیا دیکھا کہ آپ اپنا بستر اٹھائے چلے آرہے ہیں اور ابن حارثیہ بھی آپ کے پیچھے پیچھے چلا آرہا ہے ہم نے پوچھا ’’ابا جان ! یہ کیا؟ تو فرمایا وہی جو ابھی تم میرے ساتھ کر آئے ہو۔ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایسا لگتا تھا جیسے والد صاحب اس بات سے ڈر گئے کہ کہیں ابن حارثیہ کے ساتھ سونا باقی اولاد کے ساتھ ظلم نہ ہو۔[1] ۶۔ اولاد میں اخلاق فاضلہ کا پیدا کرنا: آپ کی اس بات کی طرف بھی خاص توجہ تھی اور آپ اپنی اولاد میں اخلاق فاضلہ پیدا کرنے کے مواقع تلاش کرتے رہتے تھے چنانچہ اپنے بیٹے عبدالملک کو جو مدینہ میں تھا خط میں یہ لکھتے ہیں کہ: کلام اور گفتگو میں فخرو مباہات، خود پسندی، غرور اور لوگوں پر بڑائی چاہنے جیسے جذبات سے بچو، چنانچہ آپ فرماتے ہیں: بات میں فخر کرنے سے بچو۔ اور خود پسندی اور اس بات کے پندار سے بچو، کہ رب تعالیٰ نے تمہیں جو نعمتیں بخشیں ہیں۔ یہ رب کے ہاں تیرے مرتبہ کی بدولت ہیں اور جن کو نہیں ملیں ان نعمتوں کی بنا پر تمہیں دوسروں پر فضیلت حاصل ہے۔ (بلکہ یہ تم پر تمہارے رب کی مہربانی ہے نہ کہ تمہارا استحقاق ) [2] ۷۔ اولاد کو زہد وقناعت کو اختیار کرنے اور معیشت میں میانہ روی اپنانے کی ترغیب: سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی شخصیت اولاد کی تربیت پر کس قدر قدرت رکھتی تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے اپنی اولاد کو ایسا بنا دیا تھاکہ وہ عیش وعشرت کی زندگی ترک کرکے زہد وقناعت اور مشقت وجفاکشی والی زندگی اختیار کرنے پر خوشی خوشی آمادہ ہوگئے تھے اور سب کچھ ہوتے ہوئے بھی سب کچھ چھو ڑنے پر تیار ہوگئے۔ حتی کہ شاہی خاندان کافرد ہونے کے باوجود ایک عام آدمی جیسی زندگی گزارتے تھے۔ چنانچہ آپ اولاد کی زاہدانہ تربیت کی پہلی اینٹ رکھتے ہوئے اپنے بیٹے عبدالملک کویہ خط لکھتے ہیں: اگر اللہ تمہیں کبھی غناء کی آزمائش میں مبتلا کرے تو میانہ روی کو ترک نہ کرنا، اللہ کے آگے سراپا تسلیم رہنا، اور اپنے مال سے رب تعالیٰ کے حقوق (یعنی زکوۃ، صدقہ اور عدم اسراف وغیرہ) ادا کرتے رہتا۔ اور اس طرح کہنا جس طرح رب کے نیک بندے نے کہا تھا کہ : {ہٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّی لِیَبْلُوَنِی اَاَشْکُرُ اَمْ اَکْفُرُ وَمَنْ شَکَرَ فَاِِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ وَمَنْ
[1] عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللّٰه وسیاستہ فی رد المظالم،ص: ۵۲۔۵۳ [2] سیرۃ عمربن عبدالعزیز،ص: ۳۱۴