کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 224
(اب تم ہی بتائو کہ اور کیا ہو سکتا ہے) یہ جواب سن کر عبداللہ لوٹ گیا۔
قارئین کرام! یہ تھا سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا ایک مشفق مربی باپ کی حیثیت سے اپنی اولاد کے ساتھ مربیانہ سلوک کہ آپ نے ایک تسلی بخش طرز اختیار کر کے اپنے بیٹے کو مطمئن کردیا۔ چنانچہ آپ نے دواہم پہلوئوں کو یکجا کر کے دکھلایا۔ ایک تو بیٹے کی بات اور مطالبہ کو فوراً ردّ نہیں کیا بلکہ یہ کہا کہ تیری یہ خواہش ضرور پوری کرتے ہیں۔ دوسرے عملاً یہ ثابت کیا کہ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا کہ جو مانگا یا جس چیز کی تمنا کی وہ مل بھی گئی۔ پھر جب بیٹا لوٹنے لگا تو آواز دے کر بلایا اور اسے اختیار دیتے ہوئے فرمایا: ’’کیا تمہیں یہ بات تسلیم ہے کہ میں تمہیں تمہاری ماہانہ تنخواہ میں سے سو درہم ادھار دے دوں؟ بیٹے نے یہ تجویز منظور کر لی اور سو درہم پیشگی ادھار لے لیے جو تنخواہ کی ادائیگی کے وقت منہا کرلیے گئے۔‘‘[1]
ایک روایت میں ذکر ہے کہ آپ کی ایک دختر نیک اختر نے آپ کے پاس ایک موتی بھجوایا اور عرض کیا: اگر آپ مجھے اس جیسا ایک موتی اور دے دیں تو میں ان کی دوبالیاں بنا کر کانوں میں پہن لیتی؟ آپ نے نہ تو ہاں میں جواب بھجوایااور نہ انکار کیا ، دراصل آپ اپنی بیٹی کو ہیرے جواہرات اور موتی زیورات پر صبر کرنا سکھانا چاہتے تھے۔ چنانچہ آپ نے بجائے موتی کا جوڑا بھیجنے کے دو انگارے بھیج دئے اور کہلوا بھجو ایا : اگر تم ان دوانگاروں کو کانوں میں پہن سکتی ہو تو میں تمہیں تمہارے موتی کادوسرا موتی بھجوا دیتا ہوں۔[2] دراصل آپ نے اپنی بیٹی کی یہ تربیت کی ناحق مطالبات کاانجام آخرت میں کیا ہوگا۔[3]
۵۔ اولاد میں عدل و مساوات کا قیام:
آپ کا اپنی اولاد کے ساتھ بے حد عمدہ معاملہ تھا۔ آپ ان میں برابری کرنے کے بے حد حریص تھے اور باجودیکہ آپ کی اولاد زیادہ تھی پھر بھی سب میں عدل سے کام لیتے تاکہ ان میں باہم حقد وحسد اور بغض و نفرت کے جذبات پیدا نہ ہوں۔ یہ اسی عدل کا ہی ایک نمونہ تھا کہ آپ نے محض اس ڈر سے ’’حارثیہ‘‘ کے بیٹے کے ساتھ سونا چھوڑ دیا کہ کہیں یہ باقی اولاد کے ساتھ ظلم اور بے انصافی نہ ہو۔[4] اس کا قصہ یہ ہے کہ آپ کا حارث بن کعب کی عورت سے ایک بیٹاتھا۔ جس سے آپ کو بے حد محبت تھی، اسی لیے آپ اس کے گھر میں سوتے تھے۔ قصہ کاراوی عبدالعزیز بن عمربن عبدالعزیز کہتا ہے کہ ایک رات میں بھی وہاں چلا گیا۔ آپ نے پوچھا: کو ن ہو؟ میں نے کہا: عبدالعزیز تو آپ نے فرمایا: تم برے آئے ہو۔ غرض میں ایک کونہ آپ کے ’’شاذکونہ‘‘ (ایک قسم کا منقش موٹا یمنی کپڑا) کے پاس بیٹھ گیا۔ آپ نماز پڑھ رہے تھے۔ نماز کے بعد آپ نے مجھ سے آنے کی وجہ پوچھی تو میں نے کہا آدمی کو اپنی اولاد سے زیادہ او ر کون جانتا ہے؟ آپ
[1] سیرۃ عمر لابن الجوزی،ص: ۳۱۲
[2] سیرۃ عمر لابن الجوزی،ص: ۱۳۴
[3] النموذج الاداری، ص: ۱۰۱
[4] المنوذج الاداری،ص: ۱۰۲