کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 223
عذر معذرت کام آئے گی اور نہ فدیہ ہی قبول کیا جائے گا۔ وہاں سب پوشیدہ باتیں ظاہر ہوکر سامنے آجائیں گی۔ وہاں سفارشیں بے کار ثابت ہوں گی۔ لوگ وہاں اپنے اعمال سمیت آئیں گے اور وہاں سے مختلف جماعتوں میں بٹ کر اپنی اپنی منزل کو چل دیں گے۔ پس اس دن مبارک اس شخص کو ہو جس نے اپنے رب کی اطاعت کی اور اس دن ہلاکت ہے اس کے لیے جس نے اس کی نافرمانی کی۔[1] اس خط میں آگے چل کرآپ اپنے بیٹے کو اس بات کی ترغیب دیتے ہیں کہ وہ اللہ کاذکر اور اس کا شکر کیا کرے۔ اور اپنے ہر قول و عمل میں رب کی نگرانی کو سامنے رکھے کہ وہ اس کے ہر قول وفعل کو دیکھ رہا ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں : اللہ نے تجھ پر او رتیرے باپ پر اپنا جو فضل فرمایا ہے اس کو یاد رکھ اور اگر تجھ سے ہو سکے تو ہر وقت اپنی زبان کو رب تعالیٰ کے ذکر و شکر، حمد و تسبیح اور تہلیل و استغفار سے تر رکھا کرے تو ایسا ضرور کر۔ کیونکہ سب سے عمدہ بات جس تک تم پہنچو وہ رب تعالیٰ کی حمد اور اس کا شکر ہے۔ اسی طرح سب سے عمدہ بات جس کے ذریعے تم بری باتوں کو ختم کر سکو وہ رب تعالیٰ کی حمد اور اس کا شکر ہے۔[2] ۳۔ حسن ظن اور چشم پوشی کی ترغیب دینا: آپ اپنی اولاد کو اس بات کی ترغیب دیا کرتے تھے کہ وہ لوگوں کے ساتھ حسن ظن رکھیں کیونکہ بعض ظن گناہ ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ چشم پوشی والا رویہ اختیار کریں۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے اپنے بیٹے عبدالعزیز سے یہ کہا: جب تم کسی مسلمان کے بارے میں کوئی بات سنو تو اس کو شر پر محمول مت کرو۔‘‘ ۴۔ نرم گرفتاری اور عاقلانہ گفتگو: آپ اپنی اولاد کے ساتھ بے حد نرمی سے پیش آتے، البتہ ان کے ساتھ ایسا لاڈ پیار بھی نہ کرتے جس سے وہ بگڑ جاتے اور ان کے اخلاق خراب ہوجاتے۔ اس لیے آپ ان کے ساتھ عاقلانہ گفتگو کر تے تھے اطمینان بخش اسلوب اختیار کرتے اور افہام و تفہیم میں منطقیانہ طرزاپناتے۔ اوران کی خواہشات پوری کرنے کی ہرممکن کوشش کرتے۔[3]ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ کے دورِ خلافت میں آپ کے بچے عبداللہ نے آپ سے ایک مرتبہ ایک چادر مانگی۔ آپ نے عبداللہ کو خیاربن ریاح کے پاس بھیجا اور کہا کہ اس کے پاس جو میرے کپڑے پڑے ہیں ان میں سے لے لو۔ خیار نے وہ کپڑے نکال کردکھلائے۔ عبداللہ کو ان میں سے کوئی بھی پسند نہ آیا۔ اس نے واپس آکر کہا اباجان! میں نے آپ سے چادر مانگی۔ آپ نے مجھے خیار کے پاس بھیج دیا تو اس نے مجھے کپڑے نکال کر دکھلائے جو نہ تو میرے کپڑوں میں سے تھے اور نہ میری قوم کے کپڑوں میں سے تھے، اس پر آپ نے فرمایا بیٹے! پھر اس آدمی کے پاس تومیرے یہی کپڑے رکھے ہیں -
[1] سیرۃ عمرلابن الجوزی،ص: ۲۹۸ [2] " سیرۃ عمرلابن الجوزی،ص: ۲۹۸۷ [3] المنوذج الاداری المستخلص من اداردۃ عمر،ص: ۱۰۱