کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 221
قرآن مخلوق ہے۔ [1] اور یہی معتزلہ کے خیالات تھے جو انہوں نے گزشتہ فرقوں خوارج، جہمیہ اور قدریہ وغیرہ سے لیے تھے۔ معتزلہ نے ان فرسودہ اور مردہ خیالات کو نئے سرے سے اجاگر کیا ان کی مردہ ہڈیوں میں نئی روح پھونکی، البتہ معتزلہ نے ان فاسد خیالات ونظریات میں اصلاح وترمیم کا بھی کافی کام کیا تاکہ ان باطل نظریات کی مخالفت کا زور ٹوٹے، اس طرح معتزلہ نے ان فاسد نظریات کے خالی دامن کو عقلی اور فلسفیانہ دلائل سے بھی بھردیاحتی کہ بعد میں آنے والے باطل فرقوں نے معتزلہ کے ان عقائد کو ان کے بیان کردہ دلائل سمیت اخذ کیا۔[2] ۴۔ معتزلہ کے اصول خمسہ: سب معتزلہ پانچ ایسی باتوں پر متفق ہیں اوران پر ان کا اجماع ہے جن کو انہوں نے اپنے اعتزالی مذہب کی اہم ترین نظریاتی وا عتقادی اساس قرار دیا ہوا ہے، وہ پانچ اساسی اور اعتقادی اصول یہ ہیں : (۱) توحید (۲) عدل (۳) وعدہ اور وعید (۴) دو درجوں (یعنی ایمان اور کفر کے دو درجوں ) کے درمیان ایک تیسرے درجے کا وجود (۵) اور امر بالمعروف اورنہی عن المنکر[3] اصول خمسہ کی یہ اصطلاح واصل بن عطاء کے دور میں وجود میں نہ آئی تھی یہ اصطلاح واصل کے تلامذہ سے ماخوذ ہے جس کو حتمی شکل ابوالہذیل العلاف نے دی تھی یہی وہ علاف ہے جس نے معتزلہ کو ترقی کے بامِ عروج تک جا پہنچایا تھا۔ اسی کے ہاتھوں اعتزال کے سب موضوعات درجہ کمال اور پایہ تکمیل تک پہنچے۔ علاف نے اصولِ خمسہ کی وضاحت و تشریخ میں بعض کتابیں بھی لکھیں ۔ پھر ان مصطلحات پر مشتمل ابوہذیل کی کتابوں کو جعفر بن حرب اور قاضی عبدالجبار وغیرہ رجالِ معتزلہ نے لیا۔[4] خلافتِ عباسیہ کے آغاز میں ہی اعتزالی تحریک نے اپنے پر پر زے نکالنے شروع کر دیئے تھے۔ چنانچہ ان لوگوں نے اپنے عقائد ونظریات کی تبلیغ کے لیے بلاد امصار میں اپنے مبلغ، داعی قاصد اور پیامبر بھیجنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ پھر بعض عباسی خلفا کی سر پرستی نے بھی اعتزال کے پھیلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ بالخصوص مامون کے دور میں ہر طرف ان کا طوطی بولتاتھا۔ معتزلہ کے عقائد و نظریات پر تفصیلی گفتگو کو ہم خلافت عباسیہ کی تاریخ بیان کرنے پر اٹھا رکھتے ہیں کہ وہاں دیگر موضوعات کے ساتھ ساتھ ان کے عقائد پر بحث و تحقیق کابھی حق ادا کیا جائے گا۔ان شاء اللہ
[1] تاثیر المعتزلۃ نقلا عن الفتاوی،ص: ۲۶ [2] ایضًا [3] ایضًا [4] نشأۃ الفکرالفلسفی فی الاسلام: ۱/ ۴۱۷ از دکتور نشار