کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 220
نہیں ۔[1] یہی وجہ ہے کہ معتزلہ کو علماء نے اس طرح کافر قرار نہ دیا تھا جس طرح انہوں نے گزشتہ غالی قدریہ کو کافر قرار دیا تھا۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’رہے وہ قدریہ جو کتابت اورعلم دونوں کی نفی کرتے تھے تو علماء نے انہیں کافر قرار دیا البتہ جو رب تعالیٰ کی صفتِ علم کو تو ثابت کرتے ہیں اور خالقِ افعالِ عباد کو ثابت نہیں کرتے تھے۔ انہیں علماء نے کافر نہیں قرار دیا۔‘‘[2] جہمیہ سے اخذ کیے گئے افکار کابیان معتزلہ اورجہمیہ میں معاصرت اور شخصی تعلقات نے، جو جہم (فرقہ جہمیہ کے بانی) اور واصل بن عطا ء کے بعض اصحاب میں تھا، معتزلہ کے جہمیہ سے بعض عقائد کے اخذ کرنے میں تمہید کا کام دیا۔ چنانچہ ایک تو معتزلہ نے توحید سے متعلقہ جہمیہ کے عقائد کو لیا اور بعض ان عقائد کو بھی لیا جو نفیِ صفات، خلقِ قرآن اور رویتِ باری تعالیٰ کی مطلق نفی کو مستلزم تھے۔ ذیل میں ان کا اختصار کے ساتھ جائزہ پیش کیا جاتا ہے: الف: صفات باری تعالیٰ کی نفی: علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’پھر اس قول کی اصل، یعنی صفاتِ باری تعالیٰ کی تعطیل کے قول کی اصل یہ یہود اور مشرکین کے چیلوں سے ماخوذ ہے، اسلام میں سب سے پہلے یہ قول کرنے والا جعد بن درہم تھا، اس سے یہ قول جہم بن صفوان نے لیا اور اس کو خوب پھیلایا۔ چنانچہ جہمیہ کے اقوال وافکار اسی جہم بن صفوان کی طرف منسوب ہیں ۔‘‘ [3] پھر جہمیہ کی اس بدعت کے وارث معتزلہ بنے اور انہوں نے اس بدعتی نظریہ کی نشرواشاعت کا ذمہ اپنے اوپر لے لیا۔ البتہ اس بدعتیِ نظریہ کو ایسی صورت میں پھیلایاجس میں جہمیہ جیسا غلو اور شدت نہیں تھی۔ چنانچہ جہمیہ رب تعالیٰ کے اسماء وصفات سب کی نفی کرتے تھے۔[4] جیساکہ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ جہم نے رب تعالیٰ کی صفات کی نفی کے ساتھ ساتھ رب تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کی بھی نفی کردی تھی۔[5] جبکہ معتزلہ اسماء کا تو اثبات کرتے تھے البتہ صفات کی نفی وہ بھی کرتے تھے۔ [6] ب: قرآن کے مخلوق ہونے کا قول اور رؤیت باری تعالیٰ کی نفیٔ مطلق: علامیہ ابن تیمیہ معتزلہ کے بار ے میں رقم کرتے ہیں : رہی معتزلہ کی توحید تو یہ وہی جہمیہ والی توحید ہی ہے جو رب تعالیٰ کی صفات کی نفی کو متضمن ہے، چنانچہ جہمیہ کہتے ہیں کہ رب تعالیٰ کی رؤیت ممکن نہیں اور یہ کہ
[1] القضاء والقدر فی ضوء الکتاب والسنۃ و مذاہب الناس،ص: ۱۱۷ [2] الفتاوی نقلا عن تاثیر المعتزلۃ، ص: ۲۴ [3] الفتوی الحمویۃ الکبری، ص: ۴۷، ۴۸ تحقیق شریف ہزاع [4] تاثیر المعتزلۃ، ص:۲۵ [5] ایضًا [6] ایضًا