کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 219
خلاصہ یہ ہے کہ معتزلہ نے تاویل کے منہج کو خوارج سے حاصل کیا تھا۔ اور اس کو اپنی کچلیوں سے مضبوطی سے تھام لیا۔ پھر کتاب و سنت کی نصوص کے تعامل میں تاویل کا یہ طرز خوارج و معتزلہ دونوں میں ایک اصولی قاعدہ قرار پایا۔ قدریہ سے حاصل کیے گئے افکار کا بیان معتزلہ نے قدریہ سے بھی خوب استفادہ کیا۔ چنانچہ ان سے قدرت کی نفی کا قول لیا اور اس کو ایک نئی زندگی بخشی۔ البتہ اس میں ایک معمولی تبدیلی کی وہ یہ کہ نفی قدرت کے عقیدہ کو اس غالیانہ شکل میں قدریہ سے نہ لیا جو رب تعالیٰ کی صفت علم کی نفی کو بھی مستلزم تھا جو ’’پہلے قدریہ ‘‘ کا کٹڑ عقیدہ تھا۔ کیو نکہ یہ قول ان وجوہات کی بنا پر اپنا وجود کھو چکا تھا: (۱) خاص اس نظریہ کے حامی قدریہ کی تعداد معدودے چند تھی جن کو انگلیوں پر گنا جاسکتا تھا۔ (۲) حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ میں سے جس جس نے بھی قدریہ کا یہ مقولہ سنا تھا انہوں نے غایت احتیاط کی بنا پر اس مقولہ پر کسی قسم کا تبصرہ کرنے کی بجائے سکوت اور وقوف کو ترجیح دی تھی۔ اور بسا اوقات اس قول کے قائلین سے براء ت کا اظہار بھی کیا۔ جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ خبر لانے والے سے یہ فرمایا: ’’ان لوگوں کا جا کر بتلا دوکہ میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں ۔‘‘[1] یا پھریہ کہ ان مقدس ہستیوں نے قدریہ کے اس قول اور اس کے قائلین کو شدید اہانت و تحقیر کا نشانہ بنایا۔ جیساکہ معبد جہنی کو مطاف میں دیکھ کرطائوس بن کیسان نے اس کے ساتھ کیاتھا۔ چنانچہ طاؤس نے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر کہا: ’’یہ معبد ہے، ا سکی اہانت کرو۔‘‘[2] یا پھریہ کہ اکثر قدریہ مارے گئے تھے اور ان لوگوں کو کافر قرار دئیے جانے کے بعد ان کے فتنہ کو جڑ کر سے اکھاڑ کر پھینک دیا گیا تھا جیساکہ غیلان دمشقی جب اپنے اس فاسد عقیدے پر اڑا رہا تو اسے موت کے گھاٹ اتار کر کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا۔[3] اب معتزلہ نے ان گزشتہ واقعات کے تناظر میں قدریہ کے اس فاسد عقیدہ کو از سرنو زندہ توکیا لیکن سابقہ غلو سے بے حد احتیاط کی، جس کے خطرناک نتائج کی باز گشت ابھی بھی فضائوں میں سنائی دے رہی تھی۔چنانچہ معتزلہ نے رب تعالی کے لیے علم اور کتابت کی صفت کو تو ثابت کیا مگر خلق اور ارادہ کے دو مرتبوں کا انکار کردیا۔ وہ یوں کہ ان لوگوں نے یہ عقیدہ طے کیا کہ بندے اپنے افعال کے خالق خود ہیں ، اوریہ کہ بندے یہ افعال سر اسر خود اپنے ارادوں سے اسرانجام دیتے ہیں جن میں رب تعالیٰ کی مشیت کا کوئی دخل
[1] صحیح مسلم، شرح النووی: کتاب الایمان:۱/۱۵۶ [2] شرح اصول عقائد اہل السنۃ:۴/۶۳۷ [3] تاثیر المعتزلۃ فی الخوارج والشیعۃ،ص:۲۴