کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 217
رب تعالیٰ کی عبادت بھی کرتے تھے۔ جبکہ ان حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دین کی سلامتی اور خونریزی کو بند کرنے کے لیے اعتزال اختیار کیاتھا۔[1] معتزلہ اپنے خاص منہج مدرسہ اور زاویہ فکر کی بنا پر اہل سنت والجماعت سے جدا اور ممتاز تھے۔ ان پر صرف عقل کی حکمرانی تھی اور یہ عقل کی حکمرانی کو بلانزاع تسلیم کرتے تھے۔ ان لوگوں نے ان نصوص شرعیہ سے استدلال کرنا ترک کردیا ہوا تھا۔ جونری ہدایت اور انحراف وضلال سے جائے امن تھیں ۔[2] ۲۔ معتزلہ کے فرقے: جب معتزلہ کی اصل نری عقل تھی تو یہی عقل ان کی نفی واثبات کا معیار ومدار بھی تھی، اور دوسرے یہ لوگ جدل وخصومت پر قائم یونانی فلسفہ میں بے حد ڈوب گئے تھے توان میں دبے قدموں اختلاف گھسنے لگا۔ اور ان کی آراء میں از حد تنوع آگیا حتی کہ یہ بائیس فرقوں میں بٹ گئے جن میں واصلیہ، عمرویہ ہذلیہ اور نظامیہ زیادہ مشہور ہوئے، اگرچہ ان میں سے ہر ایک فرقے کی اپنی ایک خاص بدعت تھی، لیکن ان سب کے باوجود پانچ بنیادی باتوں پر ان سب کا اتفاق تھا۔ پھر جن اصولی باتوں میں اتفاق تھا ان اصولوں کی داخلی جزئیات میں پھر آگے ان سب کا اختلاف تھا۔ (گویا کہ بے انتہا اختلاف کے باوجود جن امور پر اتفاق تھا ان کی بھی جزئیات اور تفصیلات میں پھر از حد اختلاف تھا) اوریہ اختلاف در اختلاف ذرا جائے تعجب نہیں کہ جب یہاں حکمرانی ہی عقل کی تھی اورہر ایک کو دوسرے سے مختلف امر کا اہتمام تھا۔[3] ۳۔ معتزلہ کا اپنے سے پہلے کے گمراہ فرقوں کے عقائد کو زندہ کرنے میں اہم کردار: معتزلہ نے اپنے نظریات کو اپنے سے پہلے کے تین فرقوں سے حاصل کیاتھا اوران کے عقائد کو گویا نئی زندگی بخشی تھی اور ان کی نئی زندگی کو نیا قالب بھی بخشا۔ ان لوگوں کا سارا فکری سرمایہ خوارج غالی قدریہ اورجہمیہ کے گم کردہ راہ عقائد تھے۔[4] ذیل میں اس کاایک اجمالی تجزیہ پیش کیا جاتا ہے: خوارج سے حاصل کیے گئے افکار کابیان الف: مرتکب کبیرہ کا آخرت میں حکم: بغدادی کہتے ہیں : ’’پھر واصل اور عمرو نے اس بات کی تائید میں خوارج کی موافقت کی کہ مرتکب کبیرہ کو عذاب جہنم ہوگا۔ جبکہ یہ دونوں مرتکب کبیرہ کو موحد بھی کہتے ہیں اور مشرک اور کافر نہیں کہتے۔‘‘ [5]
[1] آراء المعتزلۃ الاصولیۃ،ص: ۷۲ [2] آراء المعتزلۃ الاصولیۃ،ص: ۷۶ [3] تاثیر المعتزلۃ فی الخوارج والشیعۃ،ص: ۱۸ [4] تاثیر المعتزلۃ فی الخوارج والشعیۃ،ص: ۱۹ [5] الفرق بین الفرق،ص: ۱۱۹