کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 216
کے اعتبار سے محض عقلی ہیں ۔ شروع کرنے سے قبل بھی اور شروع کرنے کے بعدبھی، ان کو ارباب کلام اور اصحاب جدل کا نام دیا جاتاہے۔[1]
۱۔ معتزلہ کی پیدائش اور وجہ تسمیہ :
ایک آدمی نے حسن بصری رحمہ اللہ کے پاس آکر کہا: ’’اے دین کے امام! ہمارے زمانے میں ایک ایسی نامسعود جماعت بھی پیدا ہو گئی ہے جو مرتکب کبائر کی تکفیر کرتی ہے۔ یہ خوارج کی جماعت وعید یہ ہے اور ایک اور جماعت ہے جو مرتکبین کبائر کے انجام کو امر الٰہی کی طرف مؤخر کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک ایمان کے ہوتے ہوئے کبیرہ گناہ مضر نہیں ۔ یہ اس امت کے مر جئہ ہیں آپ ان کے بارے میں کس اعتقاد کا حکم لگاتے ہیں ؟ حسن بصری رحمہ اللہ جواب سوچنے لگے مگر اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتے پاس بیٹھا واصل بن عطاء بول اٹھا: میں یہ نہیں کہتا کہ مرتکب کبیرہ مطلق مومن یا مطلق کافر ہے بلکہ وہ منزلوں کے بیچ میں ایک تیسری منزل میں ہے۔ وہ نہ مومن ہے اورنہ کافر۔ پھر اپنے شیخ کے حلقہ سے فوراً اٹھ کر سامنے مسجد کے ایک ستون کی طرف جدا ہو کر چل دیا، گویا کہ اس نے یہ اعلان کر دیا کہ میں اپنے اس جواب پر پکا ہوں ۔
واصل کے اس جواب اور اس حرکت پر حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’اعتزل عنا واصل‘‘(واصل ہم سے جدا ہوگیا) پس وہیں سے واصل اور اس کے ہم نوا ’’معتزلہ (جدا ہونے والے) کہلانے لگے۔[2]
اس بات پر تقریباً سب مورخین کااتفاق ہے[3] اور معتزلہ کا یہ نام رکھنے میں ان لوگوں کا ان حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے دور نزدیک کا بھی کوئی علاقہ نہیں جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ہونے والی جنگوں سے علیحدہ رہے تھے اور ان حضرات کانام ’’معتزلہ‘‘ خاص اس اصطلاحی معنی میں نہیں تھا جو اس لفظ کا مدلول ہے اور جو خاص واصل بن عطا ء اور اس کے ہم خیال لوگوں پر دلالت کرتا ہے۔ بے شک ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو لغوی اعتبار سے معتزلہ کہا جاتا ہے (ناکہ خاص اصطلاحی اعتبار سے) ہماری اس بات کی تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ جن معتزلہ کے بارے میں ہم گفتگو کر رہے ہیں ۔ یہ وہ لوگ تھے جو مذہب اہل سنت والجماعت سے علیحدہ ہونے کی بنا پر معتزلہ کہلائے تھے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک اصحاب رضی اللہ عنہم تو ہدایت وسنت کے امام، رشد اور صراط مستقیم کے روشن ستارے اور ایمان کی علامت تھے۔ بھلا حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان معتزلیوں کے اسلاف کیسے ہوسکتے ہیں جو شریعت کوچھوڑ کر عقل کے پیچھے چلتے تھے؟ یہیں سے ان لوگوں کی خطا واضح ہو جاتی ہے جنہوں نے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان گم کردہ راہ معتزلیوں کا اسلاف قرار دینے کی نامسعود سعی کی ہے۔ معتزلہ نے اعتزال کو اپنا دین ٹھہرایا ا ور اسی کی تعلیمات کی بنا پر وہ
[1] التنبیہ والرد للملطی، ص: ۵۰
[2] الفرق بین الفرق،ص: ۱۱۸
[3] آراء المعتزلۃ الاصولیۃ،ص: ۷۱ از دکتور علی ضویحی