کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 215
ابوالقاسم ازجی نے اپنی سند کے ساتھ طرف بن عبداللہ سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام مالک رحمہ اللہ کو کہ جب ان کے سامنے اس شخص کا ذکر ہو اجو احادیث صفات باری تعالیٰ کا دفاع کرتا تھا، یہ کہتے سنا:عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کہتے ہیں اور وہ اس اثر کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ کے بعد آنے والے حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم سے ذکر کرتے تھے۔
امام شاطبی رحمہ اللہ اس اثر پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’بے شک یہ مختصر کلام ہے جو سنت کے عمدہ اصولوں کو جمع کردیتا ہے اور اصولوں میں سے ایک وہ ہے جوبدعت کے مادوں کا قلع قمع کر دیتا ہے۔ اور ایک وہ ہے جو سنت کے پیرکار کی مدح جبکہ مخالف سنت کی مذمت بیان کرتا ہے۔ اوران میں سے ایک اصول یہ ہے کہ حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کاعمل کتاب وسنت کی تفسیر ہے بے شک سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا کلام عمدہ اصولوں اور اہم فوائد کا جامع ہے۔ ‘‘[1]
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’الرد علی الجہمیۃ ‘‘میں سیّدنا عمر رحمہ اللہ کا یہ اثر نقل کرتے ہیں :’’ جس نے اپنے دین کو خصوصات کی آماج گاہ بنا دیا اسے اکثر نقل مکانی کرنی پڑتی ہے۔‘‘[2]
صفات باری تعالیٰ کی نفی اور خلق قرآن کے قول کو معتزلہ نے جہمیہ سے لیا تھا۔ ان دونوں فرقوں کے ان دو رسوائے زمانہ نکات پر اتفاق کی بنا پر بے شمار علماء نے معتزلہ کو جہمیہ کا نام دے دیا۔ اس لیے ضروری ہے اور بے حد ضروری ہے کہ گمراہ فرقوں کی گمراہی بیان کرتے وقت اور ناموں کے اطلاق کے وقت از حد احتیاط اور بیداری سے کام لیا جائے کیونکہ ایسا اکثر ہوتا ہے کہ ایک فرقہ کسی ایک گمراہ عقیدہ میں دوسرے کاہم خیال ہوتا ہے لہٰذا اگر محض کسی ایک امر میں اشتراک کی بنا پرہم ایک فرقے پر دوسرے فرقے کے نام کااطلاق کردیں گے تومعاملہ مشتبہ ہوجائے گا۔ اور منہج کبھی مستقیم نہ ہو پائے گا۔اس لیے ہر فرقہ پر اس کے صحیح نام کا اطلاق لازمی ہے اور وہ نام کسی دوسرے فرقے سے مستعار نہ ہو بے شک یہ علمی پہلو جہاں بے حد دقیق ہے وہیں ازحد سلامتی کی راہ بھی ہے۔[3]
۶…معتزلہ
یہ اس فرقے کانام ہے جس نے دوسری صدی ہجری کے اوائل میں واصل بن عطاء کے ہاتھوں جنم لیا تھا۔[4] واصل نے عقائد کی بحث کو خالص عقلی منہج پر پر کھا۔ اس فرقہ کے نزدیک جملہ معارف حصول اوروجوب
[1] الاعتصام نقلا عن الآثار الواردۃ:۲/۸۲۲
[2] الرد علی الجہمیۃ للامام احمد رحمہ اللّٰه ،ص: ۶۹
[3] قضیۃ الثواب والعقاب بین مدارس الاسلامیین، ص: ۳۴۔
[4] ابو حذیفہ واصل بن عطاء بصری۔ غزاء متکلم، معتزلہ کے اکابر میں سے تھا۔ حسن بصری سے حدیث سنی ’’اضاف المرحبۃ‘‘ اور ’’معانی القرآن‘‘ وغیرہ کتابیں لکھیں ۔ معتزلہ کے چوتھے طبقہ سے تعلق رکھتا ہے، ۱۳۱ ھ میں وفات پائی۔