کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 212
جہمیہ کے اہم اصول مندرجہ ذیل ہیں :
(۱) جہم نے اپنے افکار ونظریات کی بنیاد جعد بن درہم کے نظریات پر رکھی جو رب تعالیٰ کی صفات ذاتیہ وخبریہ کی نفی، اور قرآن کے مخلوق ہونے کے دعوے پر مبنی تھے۔ پھر جہم نے جعد کے افکار میں مزید بدعات و خرافات کابھی اضافہ کیا۔
(۲) جہم جبر کا قائل تھا۔ اس کا گمان تھا کہ انسان مطلق بے بس ہے، اسے کسی چیز پر قدرت حاصل نہیں ۔ اس میں استطاعت نامی کوئی چیز نہیں یہ مجبور محض ہے۔
(۳) جہم کے نزدیک ایمان معرفت کا نام تھا۔ اس کاگمان تھا کہ ایمان صرف اللہ کی معرفت کانام ہے اور کفر یہ بس اللہ کی ذات سے جہل کا نام ہے۔
(۴) جہم جنت اورجہنم کے فنا کا بھی قائل تھا۔اس کا کہنا تھا کہ جب جنت اور جہنم میں لوگ داخل ہو جائیں گے توان دونوں کو فنا کردیا جائے گا۔ لہٰذا جہم کے نظریہ کے مطابق غیر متناہی حرکات کا تصور ممکن نہیں ۔
(۵) جہم اللہ کے علم کے حادث ہونے کا قائل تھا۔ جہم کے بقول اللہ کو کسی چیز کے پیدا کرنے سے پہلے اس کا علم نہیں ہوتا۔[1]
خلاصہ یہ ہے کہ جہم بن صفوان اپنے گمراہانہ عقائد میں دردر کا خوشہ چین تھا۔ چنانچہ جہم نے رب تعالیٰ کی صفات کی نفی کے قول کو جعد سے، گمراہ فلاسفہ سے اور سمنیہ[2] لیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جہم زبان آور اور فصیح وبلیغ تو تھا لیکن اسے اہل علم کی مجلس کبھی نصیب نہ ہوئی تھی ہوا یوں کہ اس کی ایک دفعہ سمنیہ سے گفتگو ہوگئی۔انہوں نے کہا ذرا اپنے رب کی، جس کی تم عبادت کرتے ہو ہمارے سامنے صفت توبیان کیجئے! یہ سن کر جہم گھر گھس گیا اورچند دن باہر تک نہ نکلا۔ پھرچند دن بعد نکل کر ان کے پاس گیا اوربولا میرا رب وہ یہ ہوا ہے جو ہرشی کے ساتھ ہے اور ہرشی میں ہے اور کوئی شی ہوا سے خالی نہیں ۔ امام احمد نے جہم کے سمنیہ کے ساتھ ہونے والے مناظرہ کو روایت کیا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جہم نے رب تعالیٰ کو روح کے ساتھ تشبیہ دے ڈالی جو نہ نظر آتی ہے اور نہ محسوس ہوتی ہے اور نہ اس کی آہٹ سنائی دیتی ہے۔[3] ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :جعد بن درہم جو ایک قول کے مطابق اہل حران میں سے تھا۔ جہاں پر بے شمار صابی اور فلاسفہ رہتے تھے۔
رب تعالیٰ کی ذات کے بارے میں ان کا مذہب یہ تھا جو جعد نے ان صابیوں اور فلاسفہ سے لیاتھا کہ
[1] تناقض الاہواء والبدع فی العقیدۃ:۱/۱۳۱
[2] سمنیہ ہندوؤں کا ایک زندیق فرقہ ہے ان کا ایک خاص فلسفہ اور گمراہا نہ مدرسہ فکر ہے، دیکھیں ظاہرۃ الارجاء فی الفکر الاسلامی: ۲/۳۹۲
[3] الردعلی الجہمیۃ والزنادقۃ للامام احمد،ص: ۴۴۔۴۵