کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 211
* اس روایت میں ’’زعموا‘‘ (انہوں نے گمان کیا) صیغہ تمریض ہے جو قطعیت پر دلالت نہیں کرتا۔ * اوران لوگوں کایہ گمان اور دعویٰ آپ کے خلاف نہیں جاتا کیونکہ یہ لوگ تو خود ارجاء کے عقیدہ میں ملوث تھے اور ان پرارجاء کی تہمت تھی۔[1] چلو فرض کیاکہ ہم یہ ر وایت تسلیم بھی کرلیتے تھے تب بھی یہ روایت حجت نہیں کیونکہ عون بن عبداللہ نے بعد میں ارجاء سے توبہ کرلی تھی۔ یہ بات لالکائی نے اپنی سند کے ساتھ نوفل ہذلی سے اور انہوں نے اپنے والد سے نقل کی ہے، وہ کہتے ہیں : عون بن عبداللہ اہل مدینہ کے مؤدبین میں اور مدینہ کا سب سے بڑا فقیہ تھا۔ پہلے مرجئی تھا، پھر ارجاء سے توبہ کر لی اور یہ اشعار کہے: ’’ہم سب سے پہلے کسی قسم کے شک و ارتیاب کے بغیر مرجئہ کے قول کو چھوڑتے ہیں ان کے نزدیک اہل جور بھی مومن ہیں حالانکہ مومن اہل جور نہیں ہوتے۔ یہ لوگ مومن کے خون کو حلال کہتے ہیں حالانکہ مومنوں کا خون تو حرام ہے۔‘‘[2] لالکائی کی اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ عون بن عبداللہ نے اجارء سے توبہ کرلی تھی۔ شاید آپ ارجاء کے سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے ساتھ قوی محبت و تعلق قائم ہونے سے پہلے قائل تھے۔‘‘[3] ۵…جہمیہ یہ فرقہ جہم بن صفوان خراسانی کی طرف منسوب ہے جو بنی راسب کا آزاد کردہ غلام جعد بن درہم کا شاگرد اور حارث بن سریح کا کاتب اور میسر منشی تھا۔ [4] اس نے خراسان میں خلافت امویہ کے خلاف فتنہ کی آگ کو ہوا دی تھی۔ جہم اپنے والی ہونے کی دعوت دیتا اور لوگوں کو اپنے اخلاق و فضائل سنا کر انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتا۔[5] اور انہیں اپنے ساتھ خروج کرنے پر تیار کرتا۔[6] ۱۲۸ھ میں خراسان کے امیر نصربن یسار اور حارث بن سریح کی فوجوں میں معرکہ کار زار ہوا۔ جہم کا حارث کی طرف سے سپاہی بن کر لڑنا واضح تھا۔ اسی جنگ میں ایک شخص نے اس کے منہ پر نیزے کا وار کر کے اسے قتل کردیا۔ ایک قول یہ ہے کہ جنگ کے اختتام میں گرفتار کر کے سلیم بن احوز کے سامنے ایک گھر میں قید رکھا گیا پھر سلیم نے اس کے قتل کا حکم دے دیا اور جہم مارا گیا۔[7]
[1] الآثار الواردۃ:۲/۸۱۵ [2] شرح اصول عقائد اہل السنۃ:۵/۱۰۷۷ [3] الآثار الواردۃ:۲۔۸۱۶ [4] حقیقۃ البدعۃ واحکامھا:۱/۱۱۵ [5] الکامل فی التاریخ نقلا عن حقیقۃ البدعۃ:۱/۱۱۵ [6] البدایۃ والنھایۃ نقلا عن حقیقۃ البدعۃ:۱/۱۱۵ [7] البدایۃ والنھایۃ نقلا عن حقیقۃ البدعۃ:۱/۱۱۶