کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 210
اس کتاب میں ابن حنفیہ نے جس ارجاء پر کلام کیا ہے وہ اس ارجاء سے مختلف ہے جس کے رد کی طرف اہل سنت نے خاص توجہ دی ہے اور وہ ارجاء ایمان سے متعلق ہے۔[1]
مر جئہ کے وہ اہم اقوال جن میں انہوں نے اہل سنت سے تجاوز کیا ہے یہ ہیں :
٭ اعمال کاایمان کے مسمی سے مؤخر ہونا۔
٭ اور کٹڑ مرجئہ کا یہ قول کہ ایمان کے ساتھ گناہ مضر نہیں جیسے کفر کے ساتھ طاعت مفید نہیں ۔[2]
سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے مروی اقوال وآثار اس بات پردلالت کرتے ہیں کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں اورایمان گھٹتا بڑھتا ہے۔ بلاشبہ یہ آثار مرجئہ کارد ہیں بالخصوص اہل علم نے مرجئہ کا ردکر تے ہوئے آپ کے ان آثار واقوال کو اپنا مستدل بنایا ہے، اسی طرح آپ نے تمام بدعات بالخصوص ارجاء کی بدعت سے بھی ڈرایا اوران سے بچنے کی تلقین کی [3] بدعات کے رد میں آپ کے چند اقوال گزشتہ میں بیان ہوچکے ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں : ’’اگر سنت کے بعدکوئی ضلالت کو ہدایت سمجھ کر اختیار کرتا ہے تو اس کے لیے کوئی عذر نہیں ۔‘‘[4]
غرض آپ بدعات کے خاتمہ اور ان کے قلع قمع کرنے کے بے حد حریص تھے۔حتی کہ اس کی خاطر آپ ٹکڑے ٹکڑے ہونے اور جان تک دینے کے لیے تیار تھے جیساکہ گزشتہ میں بیان ہوا۔ آپ سے مروی آثار اس پر دلالت کرتے ہیں کہ ایمان جملہ عبادات کو شامل ہے اور ایمان کے شعبے توجہ کے بے حد لائق ہیں اور آپ نے اس بات کا بشرطِ زندگی عہد کیاتھا کہ آپ رعایا کو عبادات اور ایمان کے جملہ شعبوں پر تیار کریں گے۔ غرض اس پر گزشتہ صفحات میں تفصیلی کلام ہوچکا ہے اور ارجاء کی بدعت کا رد حق کا احقاق اور باطل کا ابطال ہے۔ ایمان کے مسئلہ میں آپ سے ماثور صحیح قول یہی ہے۔[5]
رہا وہ قول جو ابن سعد نے ’’طبقات‘‘ میں نقل کیا ہے کہ خلیفہ بننے کے بعد آپ کے پاس عون بن عبداللہ، موسیٰ بن ابی کثیر اور عمربن حمزہ آئے۔ اور بعض مآخذ میں عمربن ذر کانام بھی آنے والوں میں مذکور ہے اوران لوگوں نے مسئلہ ارجاء میں آپ کے ساتھ بحث و مناظرہ کیا اور وہ مناظرہ کر کے یہ سمجھے کہ آپ تو ان کے بالکل موافق ہیں اور آپ کا ان کے ساتھ کسی بات میں اختلاف نہیں ۔[6] یہ قول بالکل غلط ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے:
٭ ایک تو ابن سعد نے یہ قول بلا اسناد نقل کیا ہے لہٰذا یہ قول منقطع ہے جو لائق احتجاج واستدلال نہیں ۔
[1] تہذیب التہذیب:۲/۳۲۰
[2] وسطیۃ اہل السنۃ بین الفرق:۲۹۵
[3] الآثار الواردۃ:۲/ ۸۱۳
[4] الآثار الواردۃ: ۲/ ۸۱۴
[5] الآثار الواردۃ: ۲/ ۸۱۴
[6] الطبقات:۶/۳۳۹