کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 209
۴… مرجئہ یہ فرقہ ارجاء کی طر ف منسوب ہے اور ارجاء سے مراد ہے اعمال کا ایمان سے موخر ہونا۔[1] ارجاء کے دو معانی ہیں : (۱) تاخیر کے معنی میں ، جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے: {قَالُوْٓا اَرْجِہْ وَ اَخَاہُ } (الاعراف:۱۱۱) ’’انہوں نے (فرعون سے) کہا کہ فی الحال موسیٰ اور اس کے بھائی کے معاملہ کو صاف رکھیے۔‘‘ یعنی ان کو مہلت دیجئے اوران کے معاملہ کو موخر رکھیے۔ (۲) جبکہ دوسرا معنی ہے مہلت دینا۔[2] امام احمد نے مرجئہ کی اصطلاحی تعریف یہ بیان کی ہے: ’’یہ وہ لوگ ہیں جن کا یہ گمان ہے کہ ایمان صرف زبان سے نطق کا نام ہے، اور لوگوں میں ایمان میں باہمی فضیلت نہیں ، اور یہ کہ ان کا اور فرشتوں و پیغمبروں کا ایمان ایک ہے اور یہ کہ ایمان نہ گھٹتا ہے اور نہ بڑھتا ہے۔ ایمان میں کوئی استثناء نہیں ۔ اوریہ کہ جو ز بان سے ایمان لا کر کوئی بھی نیکی نہ کرے وہ تب بھی پکا مومن ہے۔[3] کٹڑ مرجئہ کا قول یہ ہے کہ ایمان کے ہوتے ہوئے گناہ کا کوئی ضرر نہیں ، جیساکہ کفر کے ساتھ کوئی طاعت مفید ونافع نہیں یہ جہم اور اس کے ساتھیوں کا قول ہے۔[4] ارجاء بایں معنی کہ یہ اعمال کاایمان سے موخر ہونا ہے کہ یہ قول سب سے پہلے غیلان دمشقی نے کیا تھا جیساکہ علامہ شہر ستانی نے اس کی تصریح کی ہے۔[5] رہاوہ ارجاء جو ابومحمد حسن بن محمد المعروف بہ ابن حنفیہ کی طر ف منسوب ہے تو یہ ایمان میں ارجاء نہیں ۔ وہ صحابہ میں سے قتال کرنے والوں کے معاملہ کو اللہ کی طرف موخر کرنے کا نام ہے۔[6] ابن سعد (الطبقات میں ) ابنِ حنفیہ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں : ’’ارجاء پر سب سے پہلے اسی نے کلام کیا تھا۔‘‘ ابن سعد لکھتے ہیں : زاذان اور میسرہ نے ابن حنفیہ سے ملاقات کر کے اسے ارجاء پر کتاب لکھنے پر ملا مت کی تو ابن حنفیہ نے زاذان سے کہا: اے ابو عمر! کاش میں اس کتاب کو لکھے بغیر مرگیا ہوتا۔[7] یہ کتاب ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے امر کے اللہ کی طرف ارجاء کی بابت ہے جنہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بعد پیدا ہونے والوں فتنوں میں شرکت کی تھی۔ [8] ابن حجر کہتے ہیں : میں نے ابن حنفیہ کی لکھی وہ کتاب دیکھی ہے۔
[1] الفرق بین الفرق للبغدادی،ص:۲۰۲ [2] الملل والنحل للشھرستانی : ۱/۱۳۹ [3] موقف اہل السنۃ من اہل الاہواء والبدع:۱/۱۵۲ [4] وسطیۃ اہل السنۃ بین الفرق،ص: ۲۹۴، [5] الملل والنحل:۱/۱۳۹ [6] وسطیۃ اہل السنۃ بین الفرق،ص:۲۹۵ [7] الطبقات :۵/۳۲۸ [8] قضیۃ الثواب والعقاب للسمیری،ص:۳۰