کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 208
سے ایک کے نزدیک قضاء و قدر میں تفریق ہے جبکہ دوسرے کے نزدیک نہیں ۔ لیکن زیادہ ظاہر قول یہ ہے کہ قضاء اور قدر میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ [1] اور یہ اختلاف بے سود ہے۔ کیونکہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ دونوں میں ہر ایک کا اطلاق دوسرے پر درست ہے اورجب دونوں کو اکٹھا ذکر کیا جاتا ہے تب بھی دونوں میں سے ہر ایک کا دوسرے پر اطلاق ہوتاہے۔ لہٰذا ایک کی ایسی تعریف کرنے میں جو دوسرے پر بھی دلالت کرے کوئی تنگی نہیں ۔[2] ۶۔ قضاء وقدر پر راضی رہنا: سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ اگر میرے امور میں کہیں خواہش نفس سر اٹھاتی ہے تو رب کی قضاء کے مواقع ہیں ۔‘‘[3] (مگر میں خواہش نفس کو دبا دیتا ہوں ) آپ اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے: اے اللہ! تو مجھے اپنی قضا پر راضی کر دے اور اپنی تقدیر میں مجھے برکت دے، یہاں تک کہ میں اس چیز کی عجلت کی تمنا نہ کروں جس کو تو نے موخر کر دیا اور اس چیز کی تاخیر کی تمنا نہ کروں جس کو تو نے ابھی ظاہر فرما دیا۔ آپ کہتے ہیں کہ میں یہ دعا مانگتا رہا یہاں تک میرے امور میں کسی بات میں خواہش باقی نہ رہی مگر قضاء کی جگہ[4] آپ نے اپنے بیٹے عبدالملک کو دفن کرنے کے بعدیہ دعا مانگی، ’’ہم اللہ کی قضاء پر راضی ہیں اور اس کے امر کے آگے سراپا تسلیم ہیں اور سب تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں ،[5] جب لوگوں نے آ پ کے ساتھ بیٹے کی وفات پر تعزیت کی تو یہ فرمایا ’’میں اس بات سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں کہ مجھے کسی چیز سے ایسی محبت ہو جو اللہ کی محبت کے مخالف ہو بے شک یہ بات، جب وہ مجھے آزمائے اور جب مجھ پر احسان فرمائے، میر ے لیے مناسب نہیں ۔[6] اس باب میں سیّدنا عمر رحمہ اللہ سے مروی آثار رضا بالقضاء پر ابھارتے ہیں اور قضا سے مقصود وہ مقدر مصائب جو گناہ نہیں جن کو اللہ نے بندوں پرمقدر فرمایا ہے تو ان مصائب پر صبر کرنا واجب ہے، رہا ان مصائب پر راضی رہنا تو وہ مشروع ضرور ہے لیکن اس کے واجب یا مستحب ہونے میں امام احمد کے اصحاب کے دو اقوال ہیں ، جبکہ زیادہ صحیح قول اس کے غیر واجب اور مستحب ہونے کا ہے۔[7]بے شک رضا بالقضاء یہ قضاء وقدر پر ایما ن کے کمال میں سے ہے۔ اوریہ رب کے پاس موجود نعمتوں پر بھروسا ہونے کی دلیل ہے۔چنانچہ اس ایمان کی بدولت بندہ ہاتھ سے چھن جانے والی چیز پر نادم نہیں ہوتا اور نہ ملنے والی کسی چیز پر وہ فرحا ں وشاداں ہی ہوتا ہے، پس وہ قضا وقدر کے مطابق اپنے ر ب پر راضی رہتا ہے۔[8]
[1] الآثار الواردۃ:۱/۴۹۴ [2] القصاء والقدر از عبدالرحمن محـمود ،ص: ۴۴ [3] الطبقات:۵/۳۷۲ [4] سیرۃ عمرلابن عبدالحکم،ص:۹۷ [5] الآثار الواردۃ:۱/۵۳۶ [6] الحلیۃ:۵/۳۵۸۔۳۵۷ [7] مجموع الفتاوی:۸/۱۹۱ [8] الآثار الواردۃ:۱/۵۳۸