کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 207
یہ جو آپ نے فرمایا، کتاب وسنت کی اس پر صریح دلالت ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ } (الصافات:۹۶)
’’حالانکہ تم کو اور جو تم کرتے ہو اس کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے۔‘‘
اور فرمایا:
{اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ } (الزمر:۶۲)
’’اللہ ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے۔‘‘
اوریہ حدیث تو گزشتہ میں بھی گزر چکی ہے کہ ’’ہر شی مقدر ہے حتی کہ عاجزی اور دانائی بھی۔‘‘[1]
۵۔ قضاء اور قدر میں اصطلاحی فرق:
ایک قول یہ ہے کہ قدر سے مراد تقدیر اور قضاء سے مراد خلق ہے جیسے کہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{فَقَضَاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ } (فصلت:۱۲)
’’پھر (دو دن میں ) سات آسمان بنائے۔‘‘ یعنی ان کو پیدا کیا۔
قضاء اور قدر، یہ دونوں امر ایک دوسرے کو لازم ہیں کہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے۔ کیونکہ دونوں میں سے ایک اساس کے بمنزلہ ہے اور وہ ہے قدر، جبکہ دوسرا بمنزلہ عمارت کے ہے اور وہ ہے قضاء پس جس نے بھی ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا چاہا اس نے عمارت کو گرانا اور توڑنا چاہا۔[2]
ایک قول یہ ہے کہ قضاء اللہ کا وہ علم سابق ہے جس کا اس نے ازل میں حکم دیا ہے اور قدر، یہ خلق کا وقوع ہے اس امر کے مطابق جو سابق میں طے ہو چکا ہے۔[3] ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں : علماء کا کہنا ہے کہ قضاء ازل میں اجمالی کلی حکم ہے جبکہ قدر، اس ازلی حکم کی جزئیات اور تفاصیل ہے۔[4]ایک قول یہ ہے کہ یہ دونوں امر جب جمع ہوجاتے ہیں تو جدا ہو جاتے ہیں وہ یوں کہ دونوں میں سے ہر ایک کے لیے ایک مدلول پیدا ہوجاتا ہے جیسا کہ گزشتہ دواقوال سے سمجھاجاسکتا ہے اور جب یہ دونوں جدا ہوتے ہیں تو جمع ہوجاتے ہیں ، وہ یوں کہ جب ان میں سے ہر ایک کو الگ لیا جاتا ہے تو اس میں دوسرا داخل ہوجاتا ہے۔[5]
قضاء وقدر کی بابت اس قول کو ایمان اور اسلام، اسی طرح فقیر اور مسکین وغیرہ کے درمیان بیان کی جانے والی تفریق پر قیاس کیا گیا ہے شاید یہ ان دوافراد کے اقوال کے درمیان تطبیق کی ایک راہ ہے جن میں
[1] صحیح مسلم: ۲۶۵۵
[2] النھایۃلابن اثیر:۴/۷۸
[3] الآثار الواردۃ:۱/۴۹۴
[4] فتح الباری:۱۱/۴۸۶
[5] القضاء والقدر،ص: ۲۹ از محمد بن ابراہیم الحمد