کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 206
اسی سورت کی آخری آیات پڑھنے کو کہا۔ یہ قصہ گزشتہ میں مفصل گزر چکا ہے۔ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے: {مَنْ یَّشَاِ اللّٰہُ یُضْلِلْہُ وَ مَنْ یَّشَاْ یَجْعَلْہُ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ} (الانعام:۳۹) ’’اللہ جس کو چاہے گمراہ کر دے اورجسے چاہے سیدھے رستے پر چلادے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’سب بندوں کے دل ایک دل کی طرح رب رحمن کی دو انگلیوں کے بیچ میں ہیں وہ ان کو جس طرح چاہے پھیرتا ہے۔ پھر آپ نے یہ دعا مانگی’’اے دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی طاعت پر ثابت قدم رکھ۔‘‘[1] د: خلق:…خلق سے مقصود یہ ہے کہ مخلوق کا اور ہر چیز کا خالق اللہ ہے۔ وہی کائنات کا خالق وموجد ہے، وہی خالق ہے اس کے سوا سب کچھ مخلوق اور مربوب ہے۔[2] سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اس مرتبہ کو کس بلیغ پیرائے میں بیان کیا ہے۔چنانچہ وہ ارشاد باری تعالیٰ : {وَ لَوْ شَآئَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَo اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ } (ہُود:۱۱۸۔۱۱۹) ’’اور اگر تیرا رب چاہتا تو یقینا سب لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا اور وہ ہمیشہ مختلف رہیں گے۔مگر جس پر تیرا رب رحم کرے ۔‘‘ کی تفسیر ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ ’’جو لوگ اختلاف نہیں کرتے انہیں رب تعالیٰ نے ان پر رحم کرنے کے لیے پیدا فرمایاہے۔[3] یہ آیت جہاں یہ بتلاتی ہے کہ رب تعالیٰ نے بندوں کو پیدا فرمایا ہے وہیں اس امر کو بھی متضمن ہے کہ رب تعالیٰ بندوں کے افعال کا بھی خالق ہے۔[4] اسی لیے رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: {وَ لَوْ شَآئَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَo اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ وَ لِذٰلِکَ خَلَقَہُمْ } (ہُود:۱۱۸۔۱۱۹) اور اگر تیرا رب چاہتا تو یقینا سب لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا اور وہ ہمیشہ مختلف رہیں گے۔مگر جس پر تیرا رب رحم کرے اور اس نے انھیں اسی لیے پیدا کیا۔‘‘ آپ نے عدی بن ارطاۃ کو خط لکھا کہ : امابعد! تمہارا سعد بن مسعود کو عمان کا والی بنا نا تمہاری وہ خطا ہے جو اللہ نے تم پر مقدر فرما رکھی تھی اور تمہارا اس خطا میں مبتلا ہونا مقدر تھا۔ [5]
[1] صحیح مسلم، رقم: ۲۶۵۴ [2] الآثار الواردۃ:۱/۵۲۵ [3] سیرۃ عمرلابن عبدالحکم،ص:۷۴ [4] مصنف عبدالرزاق:۱۱/۱۲۲ [5] مصنف عبدالرزاق:۱۱/۱۲۲