کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 205
اللہ نے ان کی گردنوں میں ڈال دئیے ہیں اور ان پر ان کو لکھ دیا۔[1]
ایک دن خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’بے شک دنیاٹھہرنے کا گھر نہیں یہ وہ گھر ہے جس کے فنا ہونے کو اللہ نے لکھ دیا ہے اور اس کے رہنے والے لوگوں کے لیے (یہاں سے) کوچ کو لکھ دیاہے‘‘[2]
سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے منقول یہ اثر بتلاتا ہے کہ اللہ کی کتابت یہ خلائق کی وہ تقدیریں ہیں جو ان کے پیدا کرنے سے پہلے رب تعالیٰ نے لکھ دی تھیں اور اس سب کو گن لیا تھا۔ اور وہ ہر شی کی تمام جزئیات کاعلم رکھتا ہے۔[3]
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اِِلَّا فِیْ کِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَہَا } (الحدید:۲۲)
’’کوئی مصیبت نہ زمین پر پہنچتی ہے اور نہ تمھاری جانوں پر مگر وہ ایک کتاب میں ہے، اس سے پہلے کہ ہم اسے پیدا کریں ۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
’’رب تعالیٰ نے خلائق کی تقدیر وں کو زمین وآسمان کے پید کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے لکھ لیا تھااور اس وقت اس کا عرش پانی پر تھا۔‘‘[4]
ج: مشیت :…مشیت سے مراد یہ ہے کہ جو اللہ نے چاہا وہ ہوا، اور جو نہ چاہا وہ نہ ہوا اور یہ کہ زمین و آسمان میں ہونے والی ہر حرکت اور سکون اسی کی مرضی سے ہوتا ہے اور اس کی بادشاہی میں وہی ہوتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔ سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ تقدیر کے اس مرتبہ کو خوب ظاہر اور واضح کرنا چاہتے تھے اور جوان کا انکاری تھا اس پر خوب ردکرتے تھے، چنانچہ ایک عامل کو ارسال کیے گئے خط میں لکھتے ہیں : جو اللہ مقدر کرتا ہے وہ ہوتا ہے۔ جو اس نے چاہا وہ ہوا اور جو نہ چاہا وہ نہ ہوا، آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر اللہ کی ارادہ یہ ہوتا کہ اس کی نافرمانی نہ کی جائے تو وہ ابلیس کو پیدا ہی نہ کرتا۔[5]
جب غیلان دمشقی کے ساتھ آپ کا مناظرہ ہوا اور اس نے اپنے باطل عقیدہ پر سورئہ دہر کی ابتدائی آیات سے استدلال کیا تو آپ نے اس پر اس کی غلطی واضح کرنے اور اسے لاجواب کرنے کے لیے اسے
[1] الآثار الواردۃ:۱/۵۱۹
[2] سیرۃ عمرلابن الجوزی،ص: ۲۴۴
[3] الآثار الواردۃ:۱/۵۱۹
[4] صحیح مسلم،رقم:۲۶۵۳
[5] الآثار الواردۃ:۱/۵۲۴