کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 204
اسلام نے آکر اس میں اور بھی شدت سے کام لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا متعدد احادیث میں ذکر کیا۔ لوگوں نے اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا پس انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں او رآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یقین اور رب کے حضور تسلیم اختیار کرنے اور خود کو کمزور قرار دینے کے عقیدہ کے ساتھ اس پرکلام کیا کہ اس کے علم نے ہر چیز کا احاطہ کررکھا ہے اور اس نے اپنی کتاب میں اس کو شمار کر رکھا ہے اور اس کی تقدیر اس میں جاری ہے۔اور اس کے ساتھ ساتھ اس کو اپنی محکم کتاب میں بھی لکھ رکھا ہے۔ مسلمانوں نے یہیں سے علم حاصل کیا اوراگر تم یہ کہو کہ رب تعالیٰ نے فلاں آیت کیوں اتاری۔ اور فلاں بات کیوں ارشاد فرمائی۔ تو یاد رکھو کہ جو تم پڑھتے ہو اس کو وہ (یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم ) بھی پڑھتے تھے۔ اور وہ اس ارشاد خدا وندی کی اس تاویل کو جانتے تھے جس سے تم جاہل ہو اور ان لوگوں نے اس سب کے بعد بھی کتاب اور قدر کاقول کیا، اور یہ کہ جو اس نے مقدر کیا، وہ ہوا اور جو اس نے چاہا ہو کر رہا۔ اور جو نہ چاہا وہ نہ ہوا اور ہم اپنے کسی نفع و نقصان کے مالک نہیں پھر ان لوگوں نے اپنے رب کی رغبت بھی کی اور اس سے ڈر بھی رکھا۔[1] سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے رسائل وخطبات سے قدر کے جو مراتب ظاہر ہوتے ہیں ، وہ یہ ہیں : الف: علم:… اس سے مراد یہ ہے کہ رب تعالیٰ کو بندوں کو پیدا کرنے سے پہلے ہی اپنے علم قدیم کے ذریعے، جو اس کی صفات ذاتیہ میں سے ہے، اس بات کا علم ہے کہ اس کے بندے کیا کرنے والے ہیں اور وہ کس طرف جانے والے ہیں ، وہ جانتا ہے کہ اہل جنت کون ہیں اور اہل جہنم کون ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَ عِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّ رَقَۃٍ اِلَّا یَعْلَمُہَا} (الانعام:۵۹) ’’اور اسی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں ، انھیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہ جانتا ہے جو کچھ خشکی اور سمندر میں ہے اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اسے جانتا ہے ۔‘‘ ایک آدمی نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اہل جنت کو اہل جہنم سے (ممتاز کرلیا اور ) جان لیا گیا ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اس پر اس آدمی نے عرض کیا، تو پھر عمل کرنے والے کس لیے عمل کیے جارہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ہر آدمی اسی طرف چلاجارہا ہے جس کے لیے اسے پید کیا گیا ہے۔‘‘[2] ب: مرتبہ کتابت:…سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا: اے لوگو! جو تم میں سے کوئی نیکی کا کام کرے وہ اس پر اللہ کی حمد بیان کرے اور جو بر اکر ے وہ اللہ سے استغفار کرے، پھر اگر دوبارہ کرے تو (پھر) استغفار کرے اس لیے کہ لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان اعمال کو کریں جو
[1] الابانۃ، لابن بطۃ:۲/۲۳۱،۲۳۲،۲۳۳ [2] صحیح مسلم،رقم:۲۶۴۹