کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 203
دلالت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ } (الصافات:۹۶) ’’حالانکہ اللہ ہی نے تمھیں پیدا کیا اور اسے بھی جو تم کرتے ہو ۔ ‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ہر چیز مقدر ہے یہاں تک کہ عاجزی وذہانت بھی۔‘‘[1] چنانچہ سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ اپنے ایک خطبہ میں بیان کرتے ہیں : جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ توبہ واستغفار کرے اور وہ تقدیر کو آڑ بنا کر اللہ کے ساتھ حجت نہ کرے اور یہ نہ کہے کہ بھلا اس میں میرا کیا دوش، یہ گناہ تو خود اللہ نے میرے مقدر میں لکھ دیا تھا بلکہ وہ جان لے کہ گناہ گار، نافرمان اور اس گناہ کا فاعل وہی ہے اگر چہ یہ سب اللہ کی قضاء و قدر اور قدرت و مشیت سے تھا۔ کیو نکہ کوئی بھی چیز رب تعالیٰ کی مشیت وقدرت اور خلق کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ آپ نے قدریہ کے اس قول کارد کیا کہ بندہ اپنی مشیت میں مستقل بالذات ہے جس کے ذریعے وہ اللہ کے علم کو رد کر سکتا ہے، آپ نے واضح کیا کہ اگرچہ بندہ کی قدرت ومشیت ہے مگر وہ رب کی قدرت و مشیت کے تابع ہے۔[2] ۴۔ مراتب قدر کا بیان: سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے مروی آثار مجموعی طور پر ایمان بالقدر پر دلالت کرتے ہیں ، اس طرح وہ آثار قدر کے ان چارمراتب پر بھی دلالت کرتے ہیں جن پر سلف صالحین کا اور ان کے منہج پر چلنے والوں کا اتفاق ہے۔ وہ یہ کہ قدر پر ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک کہ رب تعالیٰ کے علم، کتابت (لوح محفوظ میں لکھنا) ا ور خلق ومشیت پر ایمان نہ لایا جائے۔ آپ کے دور میں پائے جانے والے قدریہ علم اور کتابت کے منکر تھے۔ اور یہی وہ لوگ تھے جن سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ ارشاد فرما کر براء ت کا اظہار کیا تھا کہ جب تو ان سے ملے تو انہیں بتلا دیناکہ میں ان سے اور وہ مجھ سے بری ہیں ۔[3] ایک شخص کے خط کے جواب میں آپ نے جو رسالہ لکھا تھا وہ قدر کے مراتب کو بیان کرتا ہے۔ آپ لکھتے ہیں : تم نے (مجھ سے ) اقرار بالقدر کے بارے میں سوال پوچھا، تو اللہ کے حکم سے تم نے جاننے والے سے یہ سوال پوچھا میں نہیں جانتا کہ لوگوں نے اقرار بالقدر سے زیادہ واضح اثر والی اور ثابت امر والی کوئی بدعت اور نئی بات ایجاد کی ہو۔ دور جاہلیت میں اس کو جہلاء ذکر کیا کرتے تھے، وہ لوگ اپنے شعر اور نثری کلام میں اس کا ذکر کیا کرتے تھے اور کسی ہونے والے نقصان پر قدر کے ذکر سے اپنی تعزیت کیا کرتے تھے۔ پھر
[1] صحیح مسلم،رقم:۲۶۵۵ [2] الآثار الواردۃ:۲/۷۶۹۔۷۷۰ [3] صحیح مسلم: کتاب الایمان باب القدر:۱/۳۶۔۳۷