کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 202
زبردست بحث کی۔ آپ نے ان سے اللہ کے علم کے بارے میں سوال کیا۔ چنانچہ اگر تو وہ علم کا اقرار کر لیتے تو انہیں خصیم قرار دیا جاتا اور اگر وہ علم الٰہی کا انکار کرتے تو کافر قرار پاتے، چنانچہ جب آپ نے غیلان دمشقی سے پوچھا کہ ’’تم علم کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ بولا علم ختم ہوچکا۔‘‘ آپ نے فرمایا: تم خصیم ہو اب جائو اور جو چاہو کہو اے غیلان ! تیرا ناس ہو! اگر تو علم کا اقرار کرتاہے تو تو خصیم ہے اور اگر انکار کرتا ہے تو تو کافر ہے اور تیرا اقرار کر کے خصیم بننایہ تیرے لیے انکار کرکے کافر بننے سے بہتر ہے۔[1]
شاید سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے قدریہ کے ساتھ علم کے بارے میں سوال کر نے کا یہ منہج اختیار کیا تھا۔ اور بعد میں یہی اہل سنت والجماعت کا منہج قرار پایا۔ آپ نے تقدیر کے منکروں پر رد کر نے کے لیے غیلان کے سامنے صریح آیات کی تلاوت کی۔ جیساکہ بعض روایات میں آتا ہے۔ ان صریح آیات میں سے ایک یہ ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{فَاِِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ o مَا اَنْتُمْ عَلَیْہِ بِفَاتِنِیْنَ o اِِلَّا مَنْ ہُوَ صَالِ الْجَحِیْمِ} (الصافات: ۱۶۱۔۱۶۳)
’’پس بلاشبہ تم اور جن کی تم عبادت کرتے ہو۔ تم اس کے خلاف بہکانے والے نہیں ۔ مگر اس کو جو بھڑکتی آگ میں داخل ہونے والا ہے ۔ ‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ان آیات کی تفسیر میں کہتے ہیں : ’’ اے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والو! تم اورجن خدائوں اور بتوں کو تم پوجتے ہو کہ تم سب مل کر بھی اللہ کے خلاف کسی کو بہکا نہیں سکتے۔ یعنی تم کسی کو گمراہ نہیں کرسکتے۔ مگر اسی کو جس کے بارے میں مجھے پہلے سے علم ہے کہ وہ جہنم کی بھڑکتی آگ میں جانے والا ہے۔[2]
سیّدنا عمر رحمہ اللہ نے اپنے خطبات و رسائل میں اس بات کو واضح کیا کہ ہدایت دینے والا اور گمراہ کرنے والا وہ اللہ ہے اور یہی قرآن کریم میں بھی آتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{مَنْ یَّشَاِ اللّٰہُ یُضْلِلْہُ وَ مَنْ یَّشَاْ یَجْعَلْہُ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْم} (الانعام:۳۹)
’’جس کو اللہ چاہے گمراہ کر دے اور جسے چاہے سیدھے رستے پر چلا دے‘‘
قدریہ رب تعالیٰ کے ہادی و فاتن ہونے کے منکر تھے ان کا کہنا تھا کہ یہ بندہ ہی ہے جو سیدھا رستہ اختیار کرتا ہے یا گمراہی کے رستے پرچلتا ہے۔ بہرحال سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے رسائل میں قدریہ کے ان مبتدعانہ نظریات کا بھرپوررد کیا۔ اور اپنے خطبوں میں قصد اً یا بلا قصد ان کے باطل نظریات پر زبردست نکیر کی اور واضح کیا کہ یہ نظریات اہل سنت والجماعت کے عقائد سے منحرف ہیں ۔ آپ نے واضح کیاکہ بندوں کے سب افعال مخلوق اور مقدر ہیں جولوح محفوظ میں لکھے ہیں اور کتاب وسنت کی اس پر واضح
[1] السنۃ لِعَبد اللّٰہ بن احمد بن حنبل :۲/۴۲۹
[2] تفسیر الطبری:۲۳/۱۰۹