کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 201
{وَمَا تَشَآئُ وْنَ اِِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ اِِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا o یُّدْخِلُ مَنْ یَّشَآئُ فِیْ رَحْمَتِہٖ وَالظٰلِمِیْنَ اَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا} (الد ھر:۳۰۔۳۱) ’’اور تم نہیں چاہتے مگر یہ کہ اللہ چاہے، یقینا اللہ ہمیشہ سے سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔وہ اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور ظالم لوگ، اس نے ان کے لیے درد ناک عذاب تیار کیا ہے۔‘‘ پھر فرمایا: اے غیلان ! اب تم کیا کہتے ہو؟ بولا میں یہ کہتا ہوں کہ میں اندھا تھا آپ نے مجھے بینا کر دیا میں بہرا تھا آپ نے مجھے سنتا بنا دیا، میں بھٹکا ہوا تھا آپ نے مجھے راستہ دکھا دیا۔[1] ایک روایت میں ہے کہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے غیلان کو بلوا کر پوچھا: ’’اے غیلان ! مجھے معلوم ہو اکہ تم تقدیر پر گفتگو کرتے ہو۔ بولا، ’’امیر المومنین! لوگوں نے میرے بارے میں جھوٹ بولا ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا اے غیلان! ذرا سورئہ یس کی پہلی آیات پڑھو: {یٰسo وَ الْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ} (یٰس:۱۔۲) ’’یس! قسم ہے قرآن کی جو حکمت سے بھرا ہے۔‘‘ اور یہاں تک قراء ت کی : {اِنَّا جَعَلْنَا فِیْٓ اَعْنَاقِہِمْ اَغْلٰلًا فَہِیَ اِلَی الْاَذْقَانِ فَہُمْ مُّقْمَحُوْنَo وَجَعَلْنَا مِنْ بَیْنِ اَیْدِیْہِمْ سَدًّا وَّمِنْ خَلْفِہِمْ سَدًّا فَاَغْشَیْنٰہُمْ فَہُمْ لَا یُبْصِرُوْنَo وَ سَوَآئٌعَلَیْہِمْ ئَ اَنْذَرْتَہُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْہُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ} (یٰس: ۸۔۱۰) ’’بے شک ہم نے ان کی گردنوں میں کئی طوق ڈال دیے ہیں ، پس وہ ٹھوڑیوں تک ہیں ، سو ان کے سر اوپر کو اٹھا دیے ہوئے ہیں ۔اور ہم نے ان کے آگے سے ایک دیوار کر دی اور ان کے پیچھے سے ایک دیوار، پھر ہم نے انھیں ڈھانپ دیا تو وہ نہیں دیکھتے۔ اور ان پر برابر ہے، خواہ تو انھیں ڈرائے، یا انھیں نہ ڈرائے، وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ ‘‘ غیلان بولا: ’’اے امیر المومنین، اللہ کی قسم! ایسا لگتا ہے جیسے میں نے یہ آیات اس سے قبل پڑھی بھی نہ تھیں ۔ امیرالمومنین! میں آپ کو اس بات کو گواہ بناتا ہوں کہ میں اپنے گزشتہ خیالات سے تائب ہوتا ہوں ۔ اس پرآپ نے فرمایا: ’’اے اللہ ! اگر تو یہ سچا ہے تو اسے توبہ پر قائم رکھ اور اگر یہ جھوٹا ہے تو اسے مومنوں کے لیے عبرت بنا دے۔‘‘[2] غیلان کے ساتھ سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی گفتگوئوں کی بابت متعدد روایات آتی ہیں ۔ تقدیر کے بارے میں اہل سنت کے عقائد پر آپ کی غیلان سے لمبی لمبی نشستیں ہوئیں ۔ آپ نے قدریہ کے ساتھ
[1] الآثار الواردۃ:۲/۷۵۰ [2] الابانۃ: ۲/۲۳۵