کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 200
کہتے ہیں کہ جس شخص نے سب سے پہلے رب تعالیٰ کی صفت استواء علی العرش کا انکار کرکے اس کی تاویل استیلا‘ (یعنی غلبہ) سے کی وہ غیلان دمشقی تھا۔ غیلان ۱۰۵ھ میں مارا گیا تھا۔ ایک قول یہ ہے کہ استواء علی العرش کا پہلا منکر جعدبن درہم تھا جو ۱۲۴ھ میں قتل ہوا۔ اور ایک قول جہم بن صفوان کا بھی ہے جو ۱۲۸ھ میں مارا گیا۔ اور استواء علی العرش کا انکار یہ جعد کے اس خبیث قاعدہ کے ساتھ جڑا ہوا تھا جو رب تعالیٰ کی صفات کی تعطیل کے بارے میں ہے جس کو بنیاد بنا کر جعد نے رب تعالیٰ کی صفت کلام کا انکار کیاتھا۔ راجح قول یہ ہے کہ سب سے پہلے یہ قو ل جعد نے کیاتھا کہ رب تعالیٰ عرش پر ’’حقیقۃ‘‘ مستوی نہیں پھر جعد سے یہ قول جہم نے لیا اور اس کو خوب پھیلایا۔[1]
صفت استواء کا انکار اور اس کی باطل تاویل یہ اہل ہویٰ کی پہلی شرارت تھی جہاں سے ان نامرادوں نے صفات باری تعالیٰ پر گفتگو کرنے کا رستہ نکالا اور پھر بعض کی نفی کی توبعض کی تاویل اور بعض کی بابت تعطیل کا قول کیا کیونکہ رب تعالیٰ کی صفتِ استواء علو اور فوقیت کے ساتھ مرتبط ہے، پھر اس کے ساتھ صفت رؤیت ملی ہوئی ہے۔ پھر ان لوگوں نے رب تعالیٰ کی صفاتِ فعلیہ پر ہاتھ صاف کرنا شروع کیا اور بعض نے جرأت کر کے باقی صفات خبر یہ کی بھی نفی کردی جیسے: یَدٌ(ہاتھ)عَیْنٌ (آنکھ) وَجْہٌ(چہرہ) وغیرہ۔[2]
۳۔ غیلان دمشقی کے ساتھ سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا واقعہ:
عمرو بن مہاجر کہتے ہیں کہ سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو یہ بات پہنچی کہ غیلان بن مسلم تقدیر پر گفتگو کرتاہے۔ آپ نے اسے طلب کر کے چند دن کے لیے نظر بند کیا پھر بلوا کر پوچھا اے غیلان ! مجھے تمہارے بارے میں یہ کیابات پہنچی ہے۔ ؟ عمر و کہتے ہیں : میں نے غیلان کو اشارہ سے کہا کہ وہ کچھ نہ بولے۔ لیکن غیلان نے کہا ہاں اے امیر المومنین! رب تعالیٰ فرماتے ہیں :
{ہَلْ اَتٰی عَلَی الْاِِنسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّہْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا o اِِنَّا خَلَقْنَا الْاِِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنَاہُ سَمِیْعًا بَصِیْرًاo اِِنَّا ہَدَیْنٰہُ السَّبِیْلَ اِِمَّا شَاکِرًا وَّاِِمَّا کَفُوْرًا} (الدھر:۱۔۳)
’’کیا انسان پر زمانے میں سے کوئی ایسا وقت گزرا ہے کہ وہ کوئی ایسی چیز نہیں تھا جس کا (کہیں ) ذکر ہوا ہو؟بلاشبہ ہم نے انسان کو ایک ملے جلے قطرے سے پیدا کیا، ہم اسے آزماتے ہیں ، سو ہم نے اسے خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا بنا دیا۔بلاشبہ ہم نے اسے راستہ دکھا دیا، خواہ وہ شکر کرنے والا بنے اور خواہ نا شکرا۔‘‘
سیدنا عمر رحمہ اللہ نے فرمایا: ذرا سی سورت کی آخری یہ آیتیں بھی پڑھو:
[1] الفتاوی:۵/۲۰
[2] دراسات فی الاہواء والفرق والبدع،ص: ۲۵۱