کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 199
چنانچہ ان کاگمان ہے کہ رب تعالیٰ نے مکلفین کے افعال کونہ تو مقدر کیاہے اور نہ رب تعالیٰ ان کو جانتا ہی تھا ہاں جب یہ حادث ہو رہے ہوتے ہیں اور وجود میں آرہے ہوتے ہیں یعنی ایک مکلف سے ان کاحدوث ہو رہا ہوتا تو رب تعالیٰ کے علم میں وہ افعال اس وقت آتے ہیں ۔ اور اس قول کی تفسیر خود قدریہ کا یہ دوسرا قول کرتا ہے جو یہ ہے کہ
٭ اللہ تعالیٰ نے کتابت کو مقدر نہیں کیا (یعنی اس کو لوح محفوظ نہیں لکھ رکھا) اور نہ سابق میں (بندوں کے ) اعمال کو مقدر کیا ہے۔[1]
ج: قدریہ کی پہلی جماعت کے سرغنے:…ان میں سرفہرست دو آدمیوں کے نام آتے ہیں :
معبد جھنی (متوفی ۸۰ھ):…ابن حجر نے ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں بعض ائمہ جرح و تعدیل کے ’’معبد جھنی‘‘ کے بارے میں چند اقوال نقل کیے ہیں ، چنانچہ ابو حاتم کہتے ہیں : معبد حدیث میں صدوق تھا اور بصرہ میں تقدیر پرکلام کرنے والا یہ پہلا شخص تھا اور یہ تقدیر پر کلام کر نے والوں میں سرفہرست تھا۔ پھر مدینہ چلا آیاس اور لوگوں کے دین کو برباد کردیا۔[2]
دار قطنی کہتے ہیں :معبد کی حدیث تو صالح ہے مگر اس کا مذہب برباد ہے[3]محمد بن شعیب بن شابور اوزاعی سے نقل کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں : تقدیر پر سب سے پہلے کلام کرنے والا شخص عراق کا تھا جس کا نام سوسن تھا۔ یہ نصرانی تھا۔ یہ مسلمان ہو کر پھر نصرانی بن گیا تھا۔ اسی سے معبد جہنی نے اس کے نظریات و خیالات کو لیا اور معبد سے غیلان نے ان افکار کو گلے لگایا[4] اور مسلم بن یسار تو اس ستون پر بیٹھ کر یہ کہا کرتے تھے، ’’معبد نصاریٰ کا قول کیا کرتا تھا۔‘‘
غیلان دمشقي (متوفی ۱۰۵ھ):…معبد جہنی کے بعد یہ دوسرا آدمی تھا جو قدریہ کی بدعت کا سرغنہ بنا۔ اس کی دعوت اور نام شام میں ظاہر ہوا اور وہاں کے بے شمار بندوں کو فتنہ میں مبتلا کیا۔[5]پھر غیلان نے بھی کلام کرنا شروع کر دیا او ررب تعالیٰ کی بعض صفات کی جیسے استواء علی العرش کی نفی کر دی۔[6]
یہ قول بھی غیلان کی طر ف منسوب ہے کہ ایمان یہ معرفت کا نام ہے اور اعمال یہ ایمان کے مسمی میں داخل نہیں اوریہ کہ قرآن مخلوق ہے۔[7] اور یہی باتیں غیلان کے بعد جعدبن درہم کے اصول بنیں ۔ پھر معتزلہ اور جہمیہ کے اصول بنیں ۔ چنانچہ ان لوگوں نے ان نظریات کے اصول و قواعد وضع کیے اور ان بدعات میں مزید وسعت سے کام لیا۔[8]
[1] الفتاوی نقلا عن القدریۃ والمرجئۃ، ص: ۳۰
[2] تہذیب التہذیب :۱۰/۲۲۵
[3] سیر اعلام النبلاء:۴/۱۸۶
[4] سیر اعلام النبلاء:۴/۱۸۶
[5] القدریۃ والمرجئۃ،ص:۳۲
[6] دراسات فی الاہواء والفرق والبدع،ص: ۲۵۱
[7] ایضًا،ص: ۲۵۰
[8] ایضًا،ص: ۲۵۱