کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 198
الف: قدریہ کا ظہور:…(۳۷ سے ۴۰ھ تک) خوارج اور روافض کا ظہور ہوا۔ ۶۲ھ تک یہی حال رہا۔ یہاں تک کہ نصرانی مجوسی قدریہ کا ستارہ طلوع ہوا۔ اور اس گمراہ جماعت نے جنم لیا۔ بعد میں معبد جہنی اس گمراہ عقیدہ میں طاق بنا۔ پھر تو جیسے ان مبتدعانہ اقوال کی جھڑی لگ گئی۔ اور بقول علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ بدعات اپنے آغاز میں بالشت بھر ہوتی ہیں ، پھر جب ان کے پیروکار بڑھتے جاتے ہیں تو یہ بالشت سے ہاتھ، پھر میل اور پھر فرسخوں تک پھیل جاتی ہیں ۔[1] ب: قدریہ کی پہلی جماعت کا ظہور:…قدریہ کا پتا پہلی بار ہمیں معبدجہنی (متوفی ۸۰ھ) اور اس کے پیرکاروں کے اقوال میں ملتا ہے۔ اس کے بعد غیلان دمشقی (متوفی ۱۰۵ھ) اور اس کے متبعین کے اقوال میں اس فرقے کا سراغ ملتا ہے ان کے عقائد خلاصہ یہ ہے کہ بقول ان کے رب تعالیٰ نے بندوں کے افعال کی تقدیر نہیں لکھی اور نہ ان کو مقدر کیا ہے اور یہ کہ ہرامر نئے سرے سے واقع ہوتا ہے جو اپنے وقوع سے قبل نہ تو اللہ کے علم میں تھا اور نہ اس کی کوئی تقدیر سابق ہی تھی۔‘‘ قدریہ کا یہ ابتدائی کلام ہے جو ۶۳ھ کے بعد وجود میں آیا۔ جو قدریہ اولی (قدریہ کی پہلی جماعت ) کی تاریخ پیدائش ہے۔ اس تناظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ قدریہ اولیٰ کے عقائد یہ تھے: یہ لوگ رب تعالیٰ کے علم سابق کے منکر تھے۔ اور ان کے بقول اللہ نے بندوں کے افعال کو پہلے سے مقدر نہیں فرمایا او رنہ اللہ کو ان کا علم تھا اور نہ اللہ نے ان افعال کو لوح محفوظ میں پہلے سے لکھ ہی رکھا تھا۔ اور یہ کہ ہرا مراز خود نئے سرے سے ہوتا ہے ناکہ اللہ کی تقدیرِ سابق سے اور بندے اپنے افعال میں مستقل ہیں ۔ ‘‘ یہ تقدیر کی بابت بے حد غالبانہ خیالات ہیں جن میں دراصل رب تعالیٰ کے علم، کتابت اور مکلفین کے اچھے برے عمومی افعال کی تقدیر کا انکار ہے۔ یہ قدریہ کے افکار ونظریات کا آغاز تھا۔لیکن جب جمہور آئمہ نے اس قول پر انکار کیا تو قدریہ نے رب تعالیٰ کے علمِ متقدم اور تقدیرِ سابق کا اقرار کرنا شروع کردیا۔ لیکن رب کی قدرت و مشئیت اور افعال عبد کے خلق کا اب بھی انکار کیے رکھا۔ اور اس بات سے انکار کر دیا کہ رب تعالیٰ بندوں کے افعال کا خالق ہے یا بعض افعال کا خالق ہے۔ اور اس باطل نظریہ کوان الفاظ کے ساتھ پھیلانے لگے کہ رب تعالیٰ شر کا خالق نہیں اس نظریہ پر قدریہ کا دوسرا گروہ قائم رہا جن میں سر فہرست ’’معتزلہ‘‘ کانام آتا ہے۔[2] ہم قدریہ کی پہلی جماعت کے نظریات وافکار کو ان دواقوال میں بیان کر سکتے ہیں : ٭ امر ’’اُنف‘‘ یعنی ’’مستانف‘‘ (جدید اور از سرنو) ہے اور اس سے ان کی مراد مکلفین کے افعال ہیں ۔[3]
[1] الفتاوی:۸/۴۲۵ [2] القدریۃ والمرجئۃ، ص: ۲۵ از ناصر العقل [3] الفتاوی:۷/۳۸۵