کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 197
محبت تھی جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ بالخصوص خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم سے تبری کے قائل تھے یعنی یہ لوگ ان سے برا ء ت کا اظہار کرتے تھے۔[1] جو ان باطل عقائد کا رد پڑھنا چاہے وہ میری کتاب امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا مطالعہ کرے۔ ۳…قدریہ : عمربن عبد العزیز رحمہ اللہ کے دَور میں ۱۔ قدریہ کی اصطلاحی تعریف: قدریہ کی دو تعریفیں ہیں : خاص اور عام۔ الف: قدریہ خاص معنی میں :… یہ وہ لوگ ہیں جو تقدیر کے منکر ہیں یعنی یہ لوگ اس بات کی تکذیب کرتے ہیں کہ رب تعالیٰ نے بندوں کے افعال یا بعض افعال کو تقدیر میں لکھ دیاہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں : تقدیر کچھ نہیں ۔ ہر بات نئے سرے سے واقع ہوتی ہے جس کی بابت رب تعالیٰ نے کوئی تقدیر نہیں لکھ رکھی۔ اس کی مزید تفصیل آگے آرہی ہے۔ ان شاء اللہ ب: قدریہ عام معنی میں :…یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے رب تعالیٰ کے علم، کتابت، مشیت تقدیر اور خلق کے بارے میں بغیر علم کے گفتگوئیں کیں جو نصوص شرعیہ کے مقتضی اور فہم اسلاف کے سر اسر خلاف تھیں ۔[2] ۲۔ اسلام میں قدر پر گفتگو کا آغاز: حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’مجھے اپنی امت پر تین باتوں کا ڈر ہے، روشنیوں سے شفا حاصل کرنا، سلطان کا ظلم وستم اور قدر کی تکذیب۔ ‘‘ [3] اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی بابت جھگڑا کرنے سے بالعموم اور خاص تقدیر پر گفتگو کرنے سے منع فرمایا اور اس سے ڈرایا۔ اور اس بات سے بھی منع فرمایا کہ آیات اور احادیث کو ایک دوسرے سے ٹکرایا جائے یا تقدیر کی بابت وارد نصوص میں شکوک وشبہات کو ہوا دی جائے۔ مسند احمد کی روایات میں عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں ، وہ فرماتے ہیں : ’’حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن دولت کدہ سے باہر تشریف لائے تو لوگوں کو تقدیر پر گفتگو کرتے دیکھا۔ روای کہتے ہیں (یہ منظر دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر غصہ آیا) کہ یوں لگتا تھا جیسا رخ انور پر انار کے دانوں کو دبا کر نچوڑ دیا گیا ہو (یعنی) غصہ سے (آپ کا روئے مبارک سرخ ہوگیا) پھر انہیں ارشاد فرمایا ’’تم لوگوں کو کیا ہوگیا کہ کتا ب اللہ کے بعض کو دوسرے بعض سے ٹکراتے ہو؟ اسی بات کی وجہ سے تم سے پہلے لوگ ہلاک ہوئے تھے۔[4]
[1] وسطیۃ اہل الشیعۃ بین الفرق،ص:۲۹۳۔۲۹۴ [2] القدریۃ وَالمرجئۃ،ص: ۱۹ از دکتور ناصر العقل۔ [3] مسند احمد:۵/۹۰ وصحَّحہ الالبانی فی سلسلۃ الصحیحۃ رقم: ۱۱۲۷ [4] مسنداحمد:۲/۱۷۸۔۱۹۶ قال صاحب الزوائد ہذا اسناد رجالہ ثقات۔