کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 195
کے مال انہیں واپس کر دینے کا حکم دیاچنانچہ خوارج کی بابت آپ نے اپنے عامل کو خط لکھا کہ : اگر اللہ نے تمہیں ان پر فتح دی اور ان پر غلبہ دیا تو ان کے اموال جو تمہارے ہاتھ لگے تھے انہیں واپس کر دینا [1] اور یہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی ان کے بارے میں رائے تھی کہ ان کی عورتوں اور بچوں کو قیدی نہ بنا یا جائے اوران کے مالوں کو حلال نہ کیا جاے۔[2] ۵۔ شر پسند خارجیوں کو سدھر جانے تک قید میں رکھنا: جب آپ نے ان سے قتال کیا تو جو مارے گئے سو مارے گئے۔ اور بعض قید کرلیے گئے۔ آپ نے ان کے بارے میں حکم دیا کہ جب تک ان میں اصلاح کے آثار نہ پیدا ہوجائیں اور وہ اپنے افکار سے دست بردار ہو کر حق کی طرف نہ آجائیں انہیں قید میں رکھا جائے۔[3] آپ کی وفات کے وقت بعض خارجی ابھی تک قید میں تھے۔[4] غرض ان خارجیوں کے ساتھیہ تھی سیّدنا عبدالعزیز رحمہ اللہ کی فقہ اور آپ کا منہج جو سلف صالحین کے مطابق تھا۔ ۲… روافض اصطلاح میں روافض ہر اس آدمی کا نام ہے جو اس بات کا قائل ہو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے سے پہلے کے خلفائے راشدین سے افضل ہیں ۔اور وہ اہل بیت کو خلافت کا زیادہ حق دار باور کرتاہو۔[5] روافض کے متعدد فرقے ہیں بعض اتنے غالی ہے کہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں ، یہ لوگ رافضی کہلاتے ہیں اور بعض اپنے عقائد میں کم غالی ہیں ۔ ان کے اہم فرقے یہ ہیں : کیسانیہ، سبیئہ اور امامیہ وغیرہ۔ غالی روافض کے بارے میں سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے متعدد اقوال ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں : میں بنی ہاشم کے صلاح وفساد کو جانتا ہوں اور اس کا مدار کثیر کی محبت ہے۔[6]ہٰذا جو اس سے محبت رکھتا ہے وہ بگڑاہوا ہے اور جس کو اس سے بعض ہے وہ صالح ہے۔ کیونکہ وہ خشبی تھا۔ اور رجعت کا قائل تھا۔[7] جب کوفہ کے عامل کا خط آیا جس میں اس نے اس بات کی خبر دی کہ وہ لوگ طاعت نہیں کرتے تو آپ نے جواب میں یہ لکھ بھیجا کہ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ مذمت بیان کرتا ہے اس سے طاعت طلب مت کرو کیونکہ آپ امام برحق تھے جن سے سب راضی تھے۔[8]
[1] فقہ عمر بن عبدالعزیز: ۲/ ۴۷۱ [2] فقہ عمر:۲/۴۷۱ [3] فقہ عمر : ۲/۴۷۳ [4] الطبقات : ۵/۳۵۸۔۳۵۹ [5] مقالات الاسلامین،ص: ۶۵ [6] تاریخ الاسلام نقلا عن الآثار الواردۃ:۲/۷۲۸ [7] ایضًا [8] تاریخ دمشق لابن عساکر نقلا عن الآثار الواردۃ:۲/۷۲۹