کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 194
لیے انہوں نے سازش کر کے آپ کو زہر پلوا دیا۔ اور آپ اسی دن انتقال فرماگئے جس دن آپ کا وفد کو جواب دینا طے ہوا تھا۔[1]
گزشتہ روایات بتلاتی ہیں کہ آپ کا خوارج کے ساتھ رویہ وہی تھا جو سلف صالحین، جیسے حضرت ابن عباس اور امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کا تھا۔ اوریہ بھی ان روایات سے واضح ہوتا ہے کہ آپ انہیں گمراہی کے بھنور سے نکالنا چاہتے تھے۔ اسی لیے آپ نے ان کے سب شبہات کا فور کیے۔ ان کا کھوٹ ان پر واضح کیااور ان کا عیب ان پر منکشف کیا۔[2] اورجس بات میں وہ حق پر تھے اس میں ان کے ساتھ مناظرہ نہ کیابلکہ مہلت مانگ لی۔ یہ اور بات ہے کہ مسئلہ واضح کرنے سے قبل آپ کو زہر پلا دیا گیا۔
ادھر عراقی خارجیوں نے والی عراق عبدالحمید کے خلاف طاقت کا استعمال کر کے والی کی فوج کو شکست دے دی تو سیّدنا عمربن عبدالعزیز نے جلدی سے مسلمہ بن عبدالملک کی قیادت میں اہل شام کے لشکر کو عبدالحمید کی مدد کے لیے بھیجا۔ اور عبدالحمید کو خط لکھا کہ : مجھے خارجیوں کے برے لشکر اور تمہاری فوج کے اقوال کا علم ہوگیا ہے، میں مسلمہ کو فوج دے کر بھیج رہا ہوں ۔ اب تم مسلمہ اور خارجیوں کے بیچ سے ہٹ جائو۔ چنانچہ مسلمہ نے جا کر خارجیوں کو وہاں گھیرا جہاں وہ پڑائو ڈالے ہوئے تھے۔ پھر ایک گھمسان کی جنگ کے بعد جیش خلافت کو خارجیوں پر فتح نصیب ہوئی۔[3]
اگر چہ بعض مواقع پر آپ خارجیوں کے خلاف قوۃ اور شدت سے کام لینے پر مجبور ہوگئے۔ لیکن ایسا آپ نے سب خارجیوں کے ساتھ ہر گز نہ کیا۔ لہٰذا جب بھی خارجی گفتگو اور مذاکرات کے لیے تیار ہوئے آپ نے کبھی خونریزی نہ کی۔[4]
۳۔ خارجیوں کے ساتھ قتال کا سبب:
محض اختلاف رائے کی بنا پر آپ نے کبھی خارجیوں کے ساتھ قتال کا حکم نہ دیاتھا۔ اور نہ معارضہ اور سب وشتم کے وقت ہی ایسا حکم دیا بلکہ آپ نے صبر کیا کہ شاید اللہ انہیں حق وصواب کی ہدایت نصیب کرے۔ لیکن جب خارجی خطرناک حد تک چلے گئے اور انہوں نے لوگوں میں لوٹ مار شروع کر دی، راستے پر خطر بنا دئیے۔ اور لوگوں کے خونوں سے ہاتھ رنگنے لگے تب آپ نے ان کے ساتھ قتال کرنے کا حکم دیا۔[5]
۴۔ خارجیوں کے اموال انہیں لوٹانا:
آپ نے خارجیوں کی عورتوں اور بچوں کو غلام اور قیدی نہ بنایا اور نہ ان کے اموال کو حلال کیا۔ بلکہ ان
[1] تاریخ الطبری:۷/۴۶۰
[2] الآثار الواردۃ: ۲/ ۷۱۱
[3] الطبقات:۵/۳۵۸
[4] ملا مح الانقلاب الاسلامی،ص: ۹۴
[5] فقہ عمربن عبدالعزیز:۲/۴۶۹از دکتور محمد شقیر