کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 189
درمیان نکتہ اتحاد یا نکتہ افتراق ہے۔‘‘
آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا: ’’میں جانتا یا یہ سمجھتا تھا کہ تم لوگوں نے دنیا کے لیے خروج نہیں کیابلکہ تم لوگ آخرت کے طلبگار ہو البتہ تم لوگوں نے رستہ غلط اختیار کیا۔ میں تم لوگوں سے ایک بات کا سوال کروں گا۔ تم لوگوں کو اللہ کی قسم! جہاں تک تمہارا علم ہے تم لوگ اس بابت میری تصدیق کرنا۔‘‘ بولے : ٹھیک ہے۔ تو آپ نے فرمایا۔۔کیا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ تمہارے بزرگوں میں سے نہیں ۔ اور ان لوگوں میں سے نہیں جن سے تم تعلق رکھتے ہو اور ان کے ناجی ہونے کی شہادت دیتے ہو؟ دونوں بولے: کیوں نہیں ۔ آپ نے فرمایا تم لوگ نہیں جانتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عرب مرتد ہوگئے تھے توحضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ قتال کیا، ان کا خون بہایا ان کی اولادوں کو قیدی بنایا اوران کے اموال (بحق سرکار) ضبط کرلیے؟ بولے: جی ہاں ایسا ہی ہو اتھا۔ پھر آپ نے فرمایا، کیا تم لوگ یہ نہیں جانتے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو انہوں نے وہ قیدی ان کے قبائل کوواپس کر دئیے تھے؟ دونوں بولے : جی ہاں ! ایسا ہی ہواتھا تب آپ نے پوچھا اب بتلائوکہ کیا ابوبکر عمرسے بری ہوئے یا عمرابوبکر سے بری ہوئے ؟ بولے: نہیں آپ نے پوچھا۔ اور کیا تم لوگ ان دونوں میں سے کسی سے بری ہوتے ہو؟ بولے نہیں ۔ آپ نے فرمایا۔ تم دونوں مجھے اہلِ نہروان کے بارے میں بتلائو کیا وہ تمہارے اسلاف نہیں ۔ اور کیا تمہیں ان سے تعلق نہیں اور کیا تم ان کے ناجی ہونے کی شہادت نہیں دیتے؟ بولے : کیوں نہیں ۔ آپ نے پوچھا کیا تم لوگ یہ بات نہیں جانتے کہ جب اہل کوفہ ان کی طرف نکلے تو انہوں نے اہل نہروان سے پہلے ہاتھ روک لیے، انہیں امن دیا، اوران کے خونوں سے اپنے ہاتھ نہ رنگے۔ اور نہ ان سے ان کے مال چھینے؟ دونوں بولے: جی ہاں ایسا ہی ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا: لیکن جب اہل بصرہ عبداللہ بن وہب راسبی[1] کے ساتھ اہل نہروان کی طرف نکلے تو انہوں نے اہل نہروان کو قتل بھی کیا اور صحابی رسول حضرت عبداللہ بن خباب بن ارت رضی اللہ عنہ [2]اور ان کی باندی کو قتل کردیا۔ صبح کو بنو قطیعہ نامی عرب قبیلہ پر حملہ کر کے ان کی عوتوں اوربچوں اور مردوں کو قتل کردیا یہاں تک کہ دودھ پیتے بچوں کو ابلتی ہانڈیوں میں پھینک مارا جس سے ان کے بدنوں کاریشہ ریشہ الگ ہوگیا؟ دونوں بولے: جی ہاں ایسا ہی ہو اتھا۔ آپ نے پوچھا : تو کیا اہل کوفہ نے اہلِ بصرہ سے، یا اہل بصرہ نے اہل کوفہ سے براء ت کا اظہار کیا؟ دونوں بولے : نہیں ۔ پھر آپ نے پوچھا’’اچھا کیا اس دین میں کوئی ایسی بات بھی ہے جس کی تمہیں تو گنجائش ہوپر مجھے نہ ہو۔ ؟ بولے نہیں ۔ تب آپ نے فرمایا۔ اچھا پھر تمہارے لیے یہ گنجائش کیسے نکل آئی کہ تم ابوبکر اورعمر سے تعلق رکھو اور وہ دونوں بھی ایک دوسرے تعلق رکھیں ۔ حالانکہ دونوں کی سیرت ایک دوسرے سے مختلف ہو؟ یا اہل کوفہ کے لیے اس بات کی کیونکر گنجائش نکل آئی کہ وہ اہل بصرہ
[1] الآثار الواردۃ:۲/۷۰۳
[2] الآثار الواردۃ:۲/۷۰۳