کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 188
اور فرمایا: {قُلْ ہٰذِہٖ سَبِیْلیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ وَ سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ} (یوسف:۱۰۸) ’’کہہ دے یہی میرا راستہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں ، پوری بصیرت پر، میں اور وہ بھی جنھوں نے میری پیروی کی ہے اور اللہ پاک ہے اور میں شریک بنانے والوں سے نہیں ہوں ۔‘‘[1]ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ نے خوارج کو رسالہ لکھا جس کو پڑھ کر وہ کہنے لگے کہ ہم عمر سے بات کرنے کے لیے ان کی طرف دو آدمی بھیجتے ہیں ۔ اگر تو انہوں نے ہماری بات مان لی تو خیر وگرنہ اس کے پیچھے اللہ۔چنانچہ انہوں نے بنی شیبان کاعاصم نامی ایک آزاد کردہ غلام اور دوسرا آدمی بھیجا جو بنی یشکر سے تھا۔ دونوں آپ کے پاس آئے۔ سلام کیا اور بیٹھ گئے۔ آپ نے ان دونوں سے پوچھا’ بھلا بتلائو تو تم لوگوں نے کس بنا پر ہم پر خروج کیا؟ اور ہم سے کس بات کا انتقام لیا؟ عاصم جوحبشی تھا، کہنے لگا ’’ہمیں آپ کے کردار سے بیر نہیں کیونکہ آپ عدل وانصاف قائم کرتے ہیں ، ہمیں تو صرف یہ بتلائیے کہ آپ نے یہ امر خلافت کس طریق سے سنبھالا ہے، کیا مسلمانوں کی رضا اور مشورہ سے یا ان سے خلافت زبردستی چھینی ہے؟ آپ نے جواب دیا: ’’میں نے ان سے ولایت کا مطالبہ نہ کیا تھا اور نہ ان کی مرضی کو دبا کر خلیفہ بناہوں ۔ اور میری ولی عہدی کا پروانہ اس نے لکھا جس سے میں نے اس بات کا مطالبہ کبھی نہیں کیا تھانہ چھپ کر اور نہ علانیہ۔ چنانچہ میں نے خلافت قائم کرلی اور مجھ پر کسی نے انکار نہ کیاتھا اور سوائے تمہارے کسی نے اس پر ناگواری کا اظہار نہ کیا اور تم لوگ ابھی بتلا چکے ہو کہ جو عدل و انصاف کر ے ہم اس پر راضی ہیں ۔ پس تم مجھے اسی آدمی کے درجے میں رکھ لو اگر میں حق سے ہٹوں اور اس کی مخالفت کروں تو تمہارے ذمے میری اطاعت کرنا نہیں ۔‘‘ اس پروہ دونوں بولے: ’’ہمارے تمہارے درمیان ایک امر ہے اگر تو آپ نے ہمیں وہ امر دے دیا تو آپ ہم سے اور ہم آپ سے، اور اگر آپ نے وہ امر ہم سے روک دیا تو نہ آپ ہم سے اور نہ ہم آپ سے ‘‘ آپ نے پوچھا، ’’وہ امر کیاہے؟ وہ بولے: ہم نے دیکھا کہ آپ نے اہلِ سنت کی مخالفت کی، اور ان کے طریقے کو چھوڑ کر چلے، اور ان کے طریقے کو ’’مظالم‘‘ کا نام دیا۔ پس اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تم حق پر ہو اور وہ گمراہی پر تھے تو ان سے براء ت کااظہار کیجئے اور ان پر لعنت کیجئے کہ یہی ایک بات آپ کے اور ہمارے
[1] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم،ص:۷۹۔۸۰