کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 186
ارادہ کرتے ہیں اور نہ کسی فساد کا اور اچھا انجام متقی لوگوں کے لیے ہے۔‘‘
اگر تم چاہو تو یہ تمہیں نیک نصیحت ہے اور اگر تم مجھے دھوکا باز سمجھو گے تو نصیحت کرنے والوں کو زمانہ قدیم سے دھوکا باز باور کرتے چلے آرہے ہیں والسلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ۔‘‘[1]
ان آثار سے سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا خوارج کے ساتھ رویہ ظاہر ہو جاتا ہے، اگرچہ آپ خلیفہ برحق تھے اور انہوں نے آپ کے خلاف خروج کیا لیکن پھر بھی آپ نے انہیں انگیخت نہ کیا بلکہ انہیں خط لکھ کر ڈرایا کہ وہ اہل حق کی جماعت سے خروج نہ کریں اللہ نے جماعت کے ساتھ جڑے رہنے کا حکم دیا ہے اور جماعت سے خروج کرنے اور تفریق سے منع فرمایا ہے اور اس امت کے اجماع کو حجت شرعیہ قرار دیا ہے اور جب تک امیر گناہ کا حکم نہ دے یا اس سے کھلا کفر ظاہر نہ ہو، اس کی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے۔‘‘[2]
غرض اس بابت اہل سنت والجماعت کا جو عقیدہ تھاسیّدنا عمر رحمہ اللہ نے اس کو ظاہر فرمایا۔ چنانچہ نہ تو خوارج کو انگیخت کیا اور نہ ان پر فوج کشی کی، بلکہ انہیں غورو فکر کی فرصت دی تاکہ وہ حق کی طرف لوٹ آئیں ۔ اور اس بابت آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سنت کو دلیل بنایا جو انہوں نے خوارج کے ساتھ اختیار فرمائی۔[3]
۲۔ خوارج کے ساتھ مناظرہ:
گزشتہ آثار سے واضح ہوجاتا ہے کہ آپ کا خوارج کے ساتھ رویہ کیا تھا، چنانچہ آپ نے ان کے ساتھ مناظرہ کرنے کا مطالبہ کیا اس پر بعض خارجی مناظرہ کے لیے تیار ہوگئے۔ ابن عبدالحکم کہتے ہیں کہ سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے خوارج کو یہ خط لکھا: ’’اما بعد! میں تمہیں تقوی کی وصیت کرتاہوں کیونکہ
{وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا o وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ اِِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا}
(الطلاق:۳)
’’اور جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ بنا دے گا۔ اور اسے رزق دے گا جہاں سے وہ گمان نہیں کرتا اور جو کوئی اللہ پر بھروسا کرے تو وہ اسے کافی ہے، بے شک اللہ اپنے کام کو پورا کرنے والا ہے، یقینا اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کیا ہے ۔‘‘
اما بعد! مجھے تمہارا وہ خط پہنچا ہے جو تم لوگوں نے یحییٰ بن یحییٰ اور سلیمان بن دائود کو لکھا تھا، رب تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
[1] الآثار الواردۃ : ۲/۶۹۵
[2] الآثار الواردۃ : ۲/۶۹۵
[3] الآثار الواردۃ : ۲/۶۹۶۔۶۹۷