کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 185
خوارج کے ساتھ مذاکرات اور مناظروں کی راہ اختیار کی۔ البتہ ضرورت پڑنے پر طاقت کا استعمال بھی کیا۔ آپ جدل و مناظرہ کیا کرتے تھے، آپ فرماتے ہیں : ’’جس نے دین کوخصومات کی آماج گاہ بنادیا وہ نقل مکانی کی کثرت کرتاہے (کہ ایسا آدمی ایک جگہ ٹک کر نہیں رہ سکتا اور نہ لوگ اسے ٹکنے دیتے ہیں )۔‘‘ [1] آپ فرماتے ہیں : ’’جھگڑے سے بچو کہ نہ تو اس کے فتنے سے امن ہے اور نہ اس کی حکمت سے استفادہ ہوتا ہے۔‘‘[2] آپ نے یہ بھی فرمایا: ’’جو جھگڑے، غضب اور طمع سے محفوظ رہا وہ فلاح پاگیا۔‘‘[3] آپ بے فائدہ جھگڑے سے منع فرماتے تھے۔ البتہ احسن طریقے کے ساتھ گفتگو کر نے کو پسند فرماتے تھے۔ خوارج کے ساتھ گفتگو کرنے، مناظرے کرنے اور ان کے شبہات کو حجت اور دلیل کے ساتھ رد کرنے کی بابت آپ کے واقعات مشہور ہیں ۔ آپ نے ان پر حق کو دلیل کے ساتھ واضح کیا۔ دراصل آپ کے اس رویے کا منشاسنت نبوی سے محبت اور سلف صالحین کی اتباع تھا۔[4] ۱۔خوارج کے خلیفہ کے خلاف خروج کرنے کے بارے میں آپ کا موقف: ہشام بن یحییٰ غسانی اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ سیّدنا عمر رحمہ اللہ نے خوارج کو یہ خط لکھا: ’’اگر تو تم لوگ ان باتوں کے بغیر زمین میں چلنا پھرنا چاہتے ہو کہ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ گے، ائمہ اور ذمیوں کے خلاف فسادنہ کرو گے، کسی کی آبروریزی نہ کرو گے۔ کسی مسافر کا رستہ نہ لوٹو گے، تو جہاں چاہے چلے جائو اور اگر یہ لوگ قتال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو یاد رکھو کہ اگر میری اولاد بھی جماعت مسلمین کے خلاف خروج کرے گی تو میں ان کا بھی خون بہادوں گا اوراس کے وسیلے سے اللہ کی رضا اور آخرت کے گھر کو چاہوں گا۔‘‘ [5] ایک روایت میں یہ الفاظ آتے ہیں : ’’اگر تم میری پہلو نٹھی اولاد بھی ہوتے اورامر خلافت کی بابت جو باتیں ہم نے عامۃ الناس کے لیے مقرر کی ہیں ، تم ان سے اعراض کرتے تو میں پھر بھی تمہارا خون بہا دیتا اور اس سے اللہ کی رضا اور دار آخرت کو چاہتا۔ کیونکہ رب تعالیٰ فرماتے ہیں : {تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًا وَ الْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ } (القصص:۸۳) ’’یہ آخری گھر، ہم اسے ان لوگوں کے لیے بناتے ہیں جو نہ زمین میں کسی طرح اونچا ہونے کا
[1] کتاب الصمت وآداب اللسان،ص: ۱۱۶ لابن ابی الدنیا [2] سیرۃ عمرلابن الجوزی،ص: ۲۹۳ [3] سیرۃ عمرلابن الجوزی،ص:۲۹۱ [4] الآثار الواردۃ:۲/۶۹۳ [5] سیرۃ عمرلابن الجوزی،ص:۹۹۔۱۰۰