کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 184
چوتھی فصل: سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا
خوارج، روافض، قدریہ، مرجئہ اور جہمیہ کے بارے میں موقف۱… خوارج
یہ فرقہ خلافت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں پیدا ہوا۔ اور بالتحدید یہ فرقہ ۳۷ھ میں جنگ صفین کے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے تحکیم قبول کرنے کے بعد پیدا ہوا۔ اس فرقہ کے اہم عقائد یہ ہیں :
٭ امام جائر کے خلاف خروج جائز ہے۔
٭ مرتکب کبائرکافر اور مخلد فی النار ہے۔
٭ علی بن ابی طالب، عثمان بن عفان اور دو حکم ابوموسیٰ اشعری اور عمرو بن عباس رضوان اللہ عنہم اجمعین کافر ہیں ۔[1]
یہ تینوں بنیادی باتیں خوارج کے اساسی عقائد ہیں اوران عقائد میں خوارج میں باہم کوئی اختلاف نہیں البتہ ان کی تطبیق میں بعض کو اختلاف ہے۔[2]
ابوالحسن اشعری خوارج کے متفق علیہ عقائد کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں : اگر چہ خوارج کا حکم بنانے کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کفر پر اتفاق ہے البتہ اختلاف اس امر میں ہے کہ یہ کفر شرک ہے یانہیں ۔ اور نجدات[3] کے علاوہ سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مرتکب کبائر کافر ہے۔ البتہ نجدات اس بات کے قائل نہیں ۔ اسی طرح ان خوارج کا اس بات پر بھی اجماع ہے کہ مرتکب کبائر کو رب تعالیٰ ہمیشہ کے لیے دوزخ میں ڈالے رکھیں گے۔ البتہ خاص اس مسئلہ میں بھی نجدات کا خوارج کے ساتھ اختلاف ہے۔[4]
علامہ مقدسی کہتے ہیں : ’’خوارج کے مذہب کی اصل یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تکفیر، حضرت عثمان کی براء ت، ارتکاب ذنب پر تکفیر، اور اما م جائر کے خلاف خروج۔‘‘[5]
خوارج خلافت امویہ کے خلاف ہمیشہ بر سرپیکار رہے۔ جبکہ اموی خلفاء قوت کے ساتھ ان پر غالب رہے اور ان کی قوت وشوکت توڑتے رہے۔ یہاں تک کہ سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ خلیفہ بنے تو انہوں نے
[1] وسطیۃاہل السنۃ بین الفِرَق،ص: ۲۹۱
[2] وسطیۃاہل السنۃ بین الفِرَق،ص: ۲۹۱
[3] نجدات: یہ لوگ نجدہ بن عامر حنفی کے پیروکار ہیں ۔ نجدہ ۶۹ھ میں مارا گیا تھا۔ نجدات خوارج کا ایک فرقہ ہے۔
[4] المقالات: ۱/۱۶۷۔۱۶۸
[5] البدء و التاریخ: ۵/۱۳۵