کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 183
حضرات محققین اس دعوت کے وزن سے بخوبی واقف ہیں ۔ سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جیسی عظیم ہستی، جن کے دین اسلام میں بے پناہ فضائل ومناقب ثابت ہوں ، ایسی بے ہودہ تہمتوں سے د ور اور نفور ہے۔ آپ کی سیرت ستودہ صفات تھی۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کی مدح بیان کیا کرتے تھے۔ جلیل القدر تابعین آپ کی شان میں رطب اللسان رہتے تھے۔ وہ آپ کے دین، علم، تقویٰ، عدل،رحم اور جملہ شمائل وخصائل، اور مناقب وفضائل کی شہادت دیتے تھے۔ [1] بے شک یہ جملہ اخلاق ستودہ صفات سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی سیرت میں ثابت ہیں ۔ اور ایسی سیرت کے مالک شخص سے یہ بات بے حد بعید ہے کہ وہ لوگوں کو اس بات کی ترغیب دے کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو بر سرمنبر برا بھلا کہا جائے۔ جو بھی حکومت چلانے کی بابت سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی سیرت کو آپ کے حلم اور عفوودر گزر کو جانتا ہے اور اسے رعایا کے ساتھ آپ کی حسن سیاست کا بھی علم ہے، اس پر یہ بات آفتاب نیم روز کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ یہ آپ پر بہت بڑا بہتان ہے۔ آپ کا حلم وبرداشت ضرب المثل تھا جو آنے والی نسلوں کے لیے اسوہ اور قدوہ ہے۔[2] میں نے خاص اس موضوع پر اپنی کتاب ’’خامس الخلفاء الراشدین الحسن بن علی بن ابی طالب‘‘ میں تفصیل کے ساتھ کلام کیاہے۔ اور وہاں میں نے واضح کیا ہے کہ جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا خلیفہ بننے کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد کے ساتھ کیسابے مثال حسن سلوک تھا۔ اور ان سب حضرات میں باہم کس قدر الفت و محبت او رتعظیم و تکریم تھی۔ پھر یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ بنی امیہ کے دور میں اسلامی معاشرہ بالعموم احکام شرعیہ کا سخت پابند تھا۔ اس لیے بھی ان لوگوں سے یہ بات ازحد بعید تھی کہ وہ کسی پر بھی لعن طعن کریں اور اس کے بارے میں گھٹیا الفاظ یا بازاری لہجہ استعمال کریں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو مرجانے والے مشرکوں تک پر لب کشائی سے منع فرمایا تھا بھلا اس کا حال کیاہوگا جو رب تعالی کے اولیاء وصالحین کو گالیاں دیتاہو؟ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعاً روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمایا: ’’ (مشرکوں کے ) مرجانے والوں کو برا بھلا مت کہو کہ جو انہوں نے آگے بھیجا تھا وہ اس (کے انجام) تک پہنچ چکے ہیں ۔‘‘ [3] ٭٭٭
[1] الانتصار للصحب والآل للزحیلی،ص:۳۶۷ [2] خامس الخلفاء الراشدین الحسن بن علی بن ابی طالب،ص: ۳۰۳ [3] صحیح البخاری،رقم:۶۵۱۶