کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 182
بے شک ابن سعد کا یہ اثرنرا واہی ہے جسکا تجزیہ پیش خدمت ہے۔ اس اثر کا پہلا راوی علی بن محمد ہے یہ مدائنی اور ضعیف ہے۔ اس اثر کا دوسرا راوی اسی علی کا شیخ لوط بن یحییٰ واہی ہے۔ یحییٰ بن معین ا سکے بارے میں کہتے ہیں : ’’یہ غیر ثقہ ہے۔‘‘ ابو حاتم کہتے ہیں : ’’یہ متروک الحدیث ہے۔‘‘ دار قطنی اسے ’’اخباری (قصہ گو) اور ضعیف کہتے ہیں ۔‘‘ صاحب میزان اسے ’’ہلاکت میں پڑنے والا اور غیر ثقہ قرار دتے ہیں ۔‘‘ [1] اس کے اکثر رواۃ ضعفاء، مجاہیل اورہلاکت میں پڑنے والے ہیں ۔[2]
روافض نے سیّدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ پر یہ بے بنیاد الزام لگایا ہے کہ آپ لوگوں کو اس بات کی ترغیب دیا کرتے تھے کہ وہ منبروں پر جناب علی المرتضی رضی اللہ عنہ پر سب وشتم کیا کریں ۔ بے شک یہ بے بنیاد روایت ہے جو پایہ صحت کو نہیں پہنچتی۔
اس بات کے بے بنیاد ہونے کی دلیل یہ ہے کہ لوگوں نے یہ بے وقعت تہمت، اور آبرو باختہ الزام بغیر کسی تحقیق اور تجزیہ و تنقید کے لے لیا۔ یہاں تک کہ متاخرین کے نزدیک یہ نا قابل تردید مسلمات کامقام حاصل کر گیا حالانکہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یہ رسوائے زمانہ الزام کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ۔ لہٰذا دمیری، یعقوبی اور ابوالفرج اصفہانی جیسے مؤرخین کی کتب اس باب میں مدار نہیں بن سکتیں ، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ صحیح تاریخ ان نام نہاد مورخین کی روایت کے بر خلاف ہے۔[3] چنانچہ اگر ہم ان روایات کو دیکھیں جو سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے جناب علی رضی اللہ عنہ کے اور حضرات آل بیت اطہار کے بے حد احترام و اکرام اور اعزاز واجلال کو بیان کرتی ہیں تو بنی امیہ کے منبروں پر سب وشتم کی روایات واقعاتی منطق اور متخاصمین کی فطرت وطبیعت کے بالکل برعکس نظر آتی ہیں ۔ اگر ہم بنی امیہ کی معاصر کتبِ تاریخ کا مطالعہ کریں تو وہ ان خرافات وہزلیات سے بالکل معری او رپاک نظر آتی ہیں ۔ ہذیانات کا یہ ڈھیر ہمیں ان متاخرین کی کتب میں ملتا ہے جو بنوعباس کے معاصر تھے جن کا مقصدِ وحید جمہور امت مسلمہ کی نظروں میں بنوامیہ کے کردار کو داغدار بناناتھا۔ ان آبرو باختہ روایات کو سعودی جیسے رافضی مورخین نے اپنی کتابوں میں جگہ دی ہے۔ چنانچہ مسعودی نے ’’مروج الذہب‘‘ کو ان سیاہ روایات سے مزین کیا، پھر جھوٹ کی اس داستان اور اس در وغِ بے فروغ نے چپکے چپکے دبے پائوں اہل سنت کی کتب میں بھی جگہ پالی۔ مگر افسوس کہ ان میں سے ایک روایت بھی مسند صحت پر بٹھائے جانے کے لائق نہ تھی۔ اس لیے اس بات کی دعوت چلانے کی بے حد ضرورت ہے کہ ان روایات کو نقل کرنے سے قبل ان کی صحت نقل کا، سند کے جرح سے سلامت ہونے کا اور ان کے متون کے اعتراض سے محفوظ ہونے کا یقین حاصل کرلیا جائے۔
[1] المیزان : ۳/۔۴۱۹
[2] دفاعًا عن السلفیۃ،ص:۱۸۷
[3] الحسن والحسین،ص:۱۸ از محمد رضا