کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 181
حسین بن صالح کہتے ہیں : لوگ سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے پاس بیٹھے زاہدوں کا تذکرہ کر رہے تھے۔ اور کوئی کسی کو اور کوئی کسی کو زاہد کہہ رہا تھا۔ اتنے میں آپ فرمانے لگے: ’’دنیا کے سب سے بڑے زاہد تو جناب علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے۔‘‘[1]سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ بھی ارشاد نبوی کی تعمیل میں دوسرے سلف صالحین کی طرح اہل بیت کے حقوق ادا کرنے میں کوشاں رہتے تھے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے: ’’اور میں تم لوگوں کو اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ یاد دلاتا ہوں ۔‘‘[2] علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’یہ بات اہل سنت والجماعت کے اصول میں سے ہے کہ وہ اہل بیت نبوی سے محبت کرتے ہیں ان کو دوست رکھتے ہیں اور اہل بیت کے واجب حقوق کی رعایت رکھتے ہیں ۔ بے شک رب تعالیٰ نے خمس اور فے میں ان کا حق رکھا ہے اور اس بات کا حکم دیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ بھیجتے وقت ان پر بھی صلوۃ بھیجیں ۔‘‘[3] علامہ ابن تیمیہ نے اہل بیت کے جن حقوق کو ذکر کیا ہے سیّدناعمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ شرعی مطلوب طریق پران کو ادا کرنے کی شدید تمنا رکھتے تھے۔ چنانچہ آپ نے فدک آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو لوٹا دیا۔ اسی طرح انہیں خمس کا خمس ادا کیا اور ان کو فے میں سے بھی حصہ دیا۔[4] اور ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیل میں اہل بیت کے مادی و معنوی حقوق اہتمام کے ساتھ ادا کیے۔ اور جن باتوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا تھا ان سے کوسوں دور رہے اورسلف صالحین کی اتباع میں ان حضرات کے ساتھ محبت کرنے کا حق ادا کیا۔[5] رہ گیا ابن سعد کا روایت کردہ یہ اثر کہ سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے پہلے امر اء و خلفائے بنی امیہ معاذ اللہ سیّدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ پر سب وشتم کیا کرتھے، صحیح نہیں ، ابن سعد کہتے ہیں ہمیں علی بن محمد نے لوط بن یحییٰ سے بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے پہلے کے ولاۃ بنی امیہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سب وشتم کیا کرتے تھے اور جب سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ والی بنے تو انہوں نے یہ سلسلہ بند کروادیا۔ چنانچہ کثیر عزہ خزاعی یہ اشعار کہتا ہے… ’’جب آپ (اے عمربن عبدالعزیز!) والی بنے تو آپ نے سیدنا علی بن ابی طالب پر سب وشتم نہ کی اور اس بابت لوگوں سے مطلق نہ ڈرے اور گناہ گاروں کی پیروی نہ کی، آپ نے صاف حق کہااور اپنے کلام میں آیاتِ ہدایت کو بیان کیا، آپ نے جو کہا کردکھایا اور آل بیت کے ساتھ نیکی کی حتی کہ ہر مسلمان آپ سے راضی ہوگیا۔‘‘[6]
[1] سیرۃ عمرلابن الجوزی، ص: ۲۹۲ [2] صحیح مسلم، رقم: ۲۴۰۸ [3] الفتاوی: ۳/۴۰۷ [4] الآثار الواردۃ : ۱/۴۳۳ [5] الآثار الواردۃ : ۱/۴۳۵ [6] سیر اعلام النبلاء:۵/۱۴۷