کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 180
اور ان دونوں کی اولاد ہے اور اس قول کے نصوص صحیحہ کے خلاف ہونے میں کوئی شک نہیں ۔ جس کی تائید نہ لغت سے ہوتی ہے اور نہ عرف سے، کیونکہ قرآن کریم میں اہل بیت کا کلمہ ازواج مطہرات سے خطاب کے سیاق میں آیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے : {وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوْلٰی وَ اَقِمْنَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتِیْنَ الزَّکٰوۃَ وَ اَطِعْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا} (الاحزاب: ۳۳) ’’اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور پہلی جاہلیت کے زینت ظاہر کرنے کی طرح زینت ظاہر نہ کرو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو۔ اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور کر دے اے گھر والو! اور تمھیں پاک کر دے ، خوب پاک کرنا۔ ‘‘ میں نے سیّدنا امیر المومنین خلیفہ راشد حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی سیرت پر لکھی کتاب میں اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ہے اور روافض کے ان عقائد کا قرار واقعی ردّ بھی کیا ہے سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ حضرات اہل بیت کے مادی ومعنوی حقوق سے کماحقہ واقف تھے اور آپ نے ان حقوق کو کسی قسم کی کمی بیشی کے بغیر پورا پورا ادا کیا۔[1] اوران حضرات پر ہونے والے مظالم کا ازالہ کیا اوران حضرات پر بے انتہا مادی و معنوی احسان کیا۔ جویریہ بن اسماء سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں : ’’میں نے حضرت علی ابن ابی طالب کی دختر نیک اختر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو سنا کہ جب ان کے پاس سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے ان کے لیے بے حد دعا کی۔ پھر فرمانے لگیں : جب وہ امیر مدینہ تھے تو میں ان سے ملنے گئی۔ انہوں نے میرے خواص و خدام اور محافظوں کو باہر نکال دیا یہاں تک کہ میرے اوران کے سوا کوئی باقی نہ رہ گیا۔ پھر فرمانے لگے: اے علی کی بیٹی! اللہ کی قسم! مجھے روئے زمین پر کوئی گھر والے تم لوگوں سے زیادہ محبوب نہیں ۔ بے شک تم لوگ مجھے اپنے گھر والوں سے بھی زیادہ محبوب ہو۔[2]عبداللہ بن محمد بن عقیل بن ابی طالب سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں : سیّدنا عمر رحمہ اللہ نے (خلیفہ بننے کے بعد ) سب سے پہلے جو مال تقسیم کیا یہ وہ مال تھا جو انہوں نے ہم اہل بیت کی طرف بھیجا تھا۔ چنانچہ آپ نے ہماری عورتوں کو مردوں جتنا حصہ دیا اور بچوں کو عورتوں جتنا حصہ دیا۔ پس ہم اہل بیت کو تین ہزار دینار حصہ ملا اور مجھے یہ خط لکھا کہ اگر میں زندہ رہا تو میں تم لوگوں کو تمہارے سب حقوق ادا کروں گا۔[3]
[1] الآثار الواردۃ : ۱/۴۲۹ [2] الطبقات:۵/۳۸۸ [3] الطبقات:۵/۳۹۲