کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 179
سے زیادہ مستحق ہیں کہ ان کے لیے سب سے اچھے رستے اختیار کیے جائیں اور ان کے بارے میں سب سے نیک مذہب اور اعتقاد رکھا جائے۔[1] ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’ اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مشاجرات کے بارے میں ان میں سے کسی پر طعن کرنا شرعاً منع ہے، چاہے یہ بھی معلوم ہوجائے کہ دونوں فریق میں سے حق پر کون تھا تب بھی دوسرے فریق پر زبانِ طعن دراز کرناحرام ہے کیونکہ ان جنگوں میں ہر فریق اپنے اپنے اجتہاد پر تھا۔ لہٰذا جوان میں سے مصیب تھا اس کو دہرا اجر اور دوسرے فریق کو ایک اجر ضرور ملے گا۔‘‘[2] (اس بنا پر کسی فریق پر بھی طعن کرنا حرام ہے) بے شک سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے مروی آثار کا مضمون صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں ان کے عقیدہ کو بیان کرتا ہے جو بعینہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے۔ ۹…اہل بیت کے بارے میں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا عقیدہ اہل بیت کن کو کہتے ہیں بقول ابن قیم اس کی تحدید میں علماء کے متعدد اقوال ہیں ۔ اور آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تحدید میں علماء کے چار اقوال ہیں ۔ ایک قول یہ ہے کہ آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد وہ لوگ ہیں جن پر صدقہ کا مال لینا حرام ہے۔ اور ان کے بارے میں تین اقوال ہیں : ۱۔ یہ بنوہاشم اور بنوعبدالمطلب ہیں ۔ ۲۔ یہ صرف ہاشم ہیں ۔ ۳۔ یہ بنو ہاشم اور ان سے اوپر خاندان والے ہیں جو ’’غالب‘‘ تک چلے جاتے ہیں ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ آل نبی سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذریت اور خاص ازواج مطہراتؓ ہیں ۔ تیسرا قوال یہ ہے کہ آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد قیامت تک آنے والے وہ لوگ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے پیرو کار ہیں ۔ چوتھا قول یہ ہے کہ آلِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد اس امت کے متقی لوگ ہیں ۔[3] ان اقوال کو ذکر کرنے کے بعد علامہ ابن قیم رحمہ اللہ پہلے قول کو ترجیح دیتے ہیں کہ ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل ہیں اور ان پر صدقہ کا مال لینا حرام ہے۔[4] جبکہ روافض کے نزدیک آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد صرف سیّدنا علی، سیّدہ فاطمہ، سیّدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہم
[1] الثمرالدانی فی تقریب المعانی شرح رسالۃ ابی زید،ص: ۲۳ [2] فتح الباری:۱۳/۳۴ [3] جلاء الافھام فی الصلوۃ والسلام علی خیر الانام،ص:۱۰۹ [4] جلاء الافھام فی الصلوۃ والسلام علی خیر الانام،ص:۱۱۰۔۱۱۹