کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 178
۸… مشاجرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان حضرات کے مابین
موجود اختلاف کے بارے میں سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا موقف
عبدالرحمن بن قاسم اپنے والد سے بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’’ مجھے سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا یہ قول بے حد پسند ہے کہ ’’مجھے یہ پسند نہیں کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اختلاف نہ ہوتا کیونکہ اگر ایک ہی قول ہوتاتو لوگ تنگی میں پڑجاتے۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب کے سب امام تھے جن کی اقتداء کی جاتی ہے لہٰذا ایک آدمی کو اس بات کی گنجائش ہے کہ وہ ان میں سے جس کی بات کو چاہے لے لے۔‘‘[1]
ابو عمر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا طریقہ اجتہاد یہی تھا۔[2]
جب آپ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ،حضرت علی رضی اللہ عنہ اور جنگ صفین کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا، ’’یہ وہ خون ہیں جن سے میرے ہاتھوں کو رب تعالیٰ نے دور رکھا۔ مجھے پسند نہیں کہ میں اپنی زبان کو اس میں ڈبوئوں ۔‘‘[3]
محمد بن نصر کہتے ہیں کہ ایک دفعہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے سامنے لوگوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اختلاف کو ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ’’یہ وہ معاملہ ہے جس سے اللہ نے تمہارے ہاتھوں کو دور رکھا ہے تو تم اپنی زبانوں کو اس معاملہ میں کیوں داخل کرتے ہو۔‘‘[4]
سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ بھی دوسرے علماء سلف صالحین کی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل ومناقب کو زیادہ سے زیادہ ظاہر کرنے کی شدید تمنا رکھتے تھے اور آپ کی یہ تمنا کیوں نہ ہوتی جبکہ خود رب تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا ہے:
{لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْہِمْ وَاَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا} (الفتح:۱۸)
’’بلاشبہ یقینا اللہ ایمان والوں سے راضی ہوگیا، جب وہ اس درخت کے نیچے تجھ سے بیعت کر رہے تھے، تو اس نے جان لیا جو ان کے دلوں میں تھا، پس ان پر سکینت نازل کر دی اورانھیں بدلے میں ایک قریب فتح عطا فرمائی ۔‘‘
اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے جس کو بھی یاد کیا جائے نہایت اچھے الفاظ کے ساتھ یاد کیاجائے اوران کے مشاجرات پر لب کشائی سے باز رہا جائے۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس بات کے سب
[1] جامع بیان العلم: ۲/۹۰۱۔۹۰۲
[2] الآثار الواردۃ: ۱/۴۱۰
[3] الطبقات: ۵/۳۹۴
[4] الطبقات:۵/۳۸۲