کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 177
اور ان پڑھ اعرابیوں میں بچے کے دین کو لازم پکڑو اور اس کے علاوہ کو چھوڑ دو۔‘‘[1]
سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے نزدیک سب بندے دین قویم پر پیدا کیے گئے تھے۔ اور یہ کہ دین قویم سے انحراف یہ ایک عارضی اور حادث حالت ہے۔ اس بات پر خود قرآن کریم بھی دلالت کرتا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{فَاَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ} (الروم:۳۰)
’’پس تو ایک طرف کا ہوکر اپنا چہرہ دین کے لیے سیدھا رکھ، اللہ کی اس فطرت کے مطابق، جس پر اس نے سب لوگوں کو پیدا کیا، اللہ کی پیدائش کو کسی طرح بدلنا ( جائز) نہیں ، یہی سیدھا دین ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جو بچہ بھی پیدا ہوتا ہے وہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے پس اس کے والدین اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں ۔ جیساکہ ایک چوپایہ صحیح وسالم جانور جنتا ہے کیا تم اس میں کوئی ناک کٹا (یاکوئی کٹے عضو والا) پاتے ہو۔‘‘ پھر (یہ حدیث روایت کر نے کے بعد) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (اس کی دلیل میں ) یہ آیت پڑھتے ہیں :
{فَاَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ} (الروم:۳۰) [2]
پس فطرت سلیمہ اپنے خالق کا اقرار کرتی ہے، اس سے محبت کرتی ہے، اس کے آگے ذلت اختیار کرتی ہے اور اس کی خالص ہو کر عبادت کرتی ہے۔ فطرتِ سلیمہ میں از خود ایک قوت ہوتی ہے جو اسے ان باتوں پر انگیخت کرتی ہے، اسی طرح فطرت سلیمہ رب تعالیٰ کی شریعت کا بھی اقرار کرتی ہے اور وہ اپنے خالق کی شریعت کو دوسری شریعتوں پر ترجیح دیتی ہے، اسے شریعت الٰہی کا عرفان اور شعور حاصل ہوتا ہے، مجمل بھی اور بعض تفصیلات کے ساتھ بھی۔ اسی بات کو یاد دلانے کے لیے رب تعالیٰ پیغمبروں کو بھیجتے ہیں ،وہ فطرت سلیمہ کورب کی شریعت پر متنبہ کرتے ہیں اور جس کا عرفان اسے اجمالاً حاصل ہوتا ہے اس تفصیل بیان کرتے ہیں اور رب کے یہ پیغمبر ان اسباب پر بھی متنبہ کرتے ہیں جو فطرت سلیمہ کے موجب کے معارض و مخالف ہوتے ہیں ۔[3]
[1] الطبقات: ۵/۳۷۴
[2] صحیح البخاری،رقم:۱۳۵۸
[3] شفاء العلیل،ص: ۶۲۹۔۶۳۰