کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 176
باز نہ آئے تو ان کے ساتھ محاربہ بھی کیا اور ان کے اموال، اولاد ا ور قیدیوں کے بارے میں وہ فیصلہ کیا جو امیر المومنین جناب علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کیا تھا۔[1] بلکہ آپ کی رائے تو یہ تھی کہ جو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے طریقہ سے ہٹتا ہے وہ اہل ایمان کے رستے سے نکل گیا اور ہلاک ہونے والے فرقہ میں داخل ہوگیا۔ اور حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی ہر ہر سنت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں داخل ہے، کیونکہ ان حضرات نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امر سے وہ سنت مقرر کی تھی اور دین میں واجب وہی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واجب فرمایا اور حرام وہی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام فرمایا اور یہی حکم مستحب، مکروہ اور مباح کا ہے۔ یاد رہے کہ عقائد واحکام میں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی پیروی حضرات سلف صالحین کا رستہ ہے۔ اور اسی پر کتاب وسنت دلالت کرتے ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَہَنَّمَ وَ سَآئَ تْ مَصِیْرًا } (النساء: ۱۱۵) ’’اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے، اس کے بعد کہ اس کے لیے ہدایت خوب واضح ہو چکی اور مومنوں کے راستے کے سوا (کسی اور) کی پیروی کرے ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے جس طرف وہ پھرے گا اور ہم اسے جہنم میں جھونکیں گے اور وہ بری لوٹنے کی جگہ ہے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’تم پر میری سنت کو اور میرے بعد خلفائے راشدین مہدیین کی سنت کو پکڑنا لازم ہے۔ اور اس کو کچلیوں کے ساتھ مضبوطی سے تھام لو۔ اور نئی نئی باتوں سے بچو، بے شک ہر بدعت گمراہی ہے۔[2] حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ’’ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’میں نہیں جانتا کہ میں تم لوگوں میں اور کتنا زندہ رہوں گا پس تم میرے بعد ان دو کی پیروی کرنا ’’اور یہ ارشاد فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیّدنا عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ فرمایا۔‘‘[3] ۳۔ فطرت سے تمسک: جعفربن رقان سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر خواہشات نفس میں سے کسی بات کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا ’’پڑھے لکھوں
[1] الآثار الواردۃ:۲/۶۳۷ [2] جامع الترمذی:۵/۴۴حدیث حسن صحیح [3] جامع الترمذی:۵/۶۱۰